Thursday, March 29, 2012

ذرا ٹھہرو! ۔۔۔عاطف سعید

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

جُدائی آن پہنچی ہے

مجھے تم سے بچھڑنا ہے

تمھاری مسکراہٹ، گفتگو، خاموشیاں

سب کچھ بھُلانا ہے

تمھارے ساتھ گزرے صندلیں لمحوں کو

اس دل میں بسانا ہے

تمھاری خواب سی آنکھوں میں اپنے عکس کی پرچھائی کو محسوس کرنے دو

ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو

 

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

اذیت سے بھرے لمحے

بچھڑتے وقت کے قصے

کہ جب خاموش آنکھوں کے کناروں پر

محبت جل رہی ہوگی

کئی جملے لبوں کی کپکپاہت سے ہی

پتھر ہو رہے ہوں گے

مجھے ان پتھروں میں بین کرتی چیختی گویائی کو محسوس کرنے

دو ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو

 

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

تمھارے بعد کا منظر

دلِ برباد کا منظر

جہاں پر آرزوؤں کے جواں لاشوں پر

کوئی رو رہا ہوگا

جہاں قسمت محبت کی کہانی میں

جُدائی لکھ رہی ہوگی

مجھے ان سرد لمحوں میں سسکتے درد کی گہرائی کو محسوس کرنے دو

ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو

 

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

جُدائی آن پہنچی ہے

مجھے تم سے بچھڑنا ہے

اذیت سے بھرے لمحے

بچھڑتے وقت کے قصے

تمھارے بعد کا منظر

دلِ برباد کا منظر

ذرا ٹھہرو! مجھے محسوس کرنے دو

 

1 comments:

راشدادریس رانا said...

بہت اعلٰی بلکہ بہت ہی اعلٰی ، زبردست شاعری ہے جی ، بلکل دل موہ لینے والی۔

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی