Sunday, March 18, 2012

بندے کے پُتر بنو ۔۔۔

میں آج کل جس بندے کے ساتھ فلیٹ شئیر کر رہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ وہ یہ پڑھے اور پھر ہماری لڑائی ہو ، یاں وہ میرا سر پھاڑے یا میں اُس کا۔ فیصلہ ہو ہی جائے۔ اور اگر نہیں تو ”بندے کے پُتروں” کی طرح رہے۔

شئیرنگ روم ہو یا فلیٹ، اِس کے مسائل کیا ہوتے ہیں یہ یہاں آ کر معلوم ہو رہا ہے۔ اور وہ بھی تب جب آپ نہ فلیٹ چھوڑ سکتے ہو اور نہ روم کیونکہ کمپنی رہائش ایک بار ہی دیتی ہے۔ آپ کمپلین تو کر سکتے ہیں پر اُس پر سوائے بہانوں کے کچھ نہیں ملتا۔ آپ جتنی مرضی کوشش کر لو کہ کوئی بات نہ ہو پھر بھی ٹاکرا تو ہو کر ہی رہتا ہے۔

آپ میں سے بہت سے افراد بیرونِ ملک رہ رہے ہیں اور اکثریت اُن کی روم یا فلیٹ شئیر کرتی ہے۔ یہاں تو یہ حال بھی دیکھا ہے کہ ایک روم میں آٹھ آٹھ اور ” بنگالی گلی” میں تو روم میں دس دس افراد رہ رہے ہیں۔ میں تو پھر ایک فلیٹ شئیر کر رہا ہوں اور فلیٹ میں ہم دو لوگ ہی رہتے ہیں۔ میرا حال ایسا ہے تو اُن بےچاروں کا تو اللہ ہی حافظ۔

میرا فلیٹ پارٹنر میرا سینئر بھی ہے، عُمر میں بھی تو عہدے میں بھی۔ چلو سینئر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ کل کو ہم نے بھی ہونا ہے تو اس میں کیا ہے۔ موصوف پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہیں یاں اُن کی اماں کیا کھلایا کرتی تھیں جو ایسا سپوت پیدا کیا۔ یاں پھر یہ میرے کوئی گناہ ہیں جن کی سزا مجھے مل رہی ہے۔بہت بار باتوں باتوں میں سمجھایا ( حالانکہ وہ بڑا ہے اور سمجھانا اُسے مجھے چایئے)، پر کوئی فائدہ نہیں۔ وہی کتے کی دُم اور ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔

شروع شروع میں تو اچھے سے رہا کام وام بھی کر لیا کرتا تھا، پر اتنا ہڈحرام نکلے گا یہ اُمید نہیں تھی۔ ہمارے بڑے کہتے ہیں ” بڑوں کی عزت کرو تو چھوٹے بھی دیکھا دیکھی سیکھ جاتے ہیں عزت کرنا” اور بڑوں کو کہا کرتے تھے ”اپنی عزت خوش کرواو اچھے کام کرکے تاکہ چھوٹے تمھاری عزت کریں”۔ پر اِس بندے کو شاید یہ بات نہ تو کسی نے بتائی ہے اور اگر بتائی بھی ہوگی تو اُس نے ایک کان سے سُنی ہوگی اور ۔۔۔

آفس سے ہمیشہ لیٹ، پہلے تو مجھے کہا کرتا تھا یار دیر سے جایا کرو کون سا آگ بجانا ہوتی ہے ہم نے۔ دفتر سے آرڈر ہوئے کہ جلدی آیا کریں ، میں نے جلدی جانا شروع کیا تو موصوف کو اخلاقا اُٹھا بھی دیا کرتا تھا کہ ” ٹائم ہوگیا ہے، اُٹھ جائیں”۔ ایک بار، دو بار، تین بار، چار بار جتنی بار بھی آواز دی یہی جواب آیا ” اُٹھتا ہوں”۔ میں دفتر آیا، یہ اُسی روٹین پر۔ میں نے اُٹھانا چھوڑا تو وہ گلہ کہ اب اُٹھاتے نہیں ہو۔ باہر جانا ہے تو ”چلو یار باہر چلیں” اور جس کام سے چلیں گے وہ آپ ”مالٹا بےچارہ” میں پڑھ چلے ہونگے۔(اور اگر نہیں پڑھا تو کوئی بات نہیں، یہ پوسٹ بھی نہ پڑھیں)۔

ابھی جمعرات کی ہی بات لے لیں۔ بینک سے میں نے پیسے نکلوانے تھے، تبھی موصوف کو یاد آیا کہ اُس نے پیسے جمعہ کروانے ہیں۔ ساتھ چلتے ہیں۔میں نے دل میں سوچا یااللہ خیر۔پیسے جمع اور نکلوانے میں کتنی دیر لگتی ہوگی ؟؟ دس منٹ، پندہ ؟؟ اگر آپ کا یہ جواب ہے تو آپ غلط ہیں۔

آدھ گھنٹہ۔ اور وہ بھی جب باہر نکلے اور پانچ منٹ واک کرکے آگے آ چکے تو دوسرا کام یاد آیا ۔

 ” او یار گھر پیسے بھیجنے ہیں”۔

 تو بھیج بھائی، میری ہاتھ بھجوانے ہیں کیا ؟؟

تم ایسا کرو تمھارے پاس پیسے ہیں نا ابھی تم وہ مجھے دے دو اور تھوڑے اور نکلوا لو میں نے تو اب جمع کروا دیئے ہیں (اس لیے جمع کروانے کہ بینک سٹیٹمنٹ اچھی بن جائے) تو کل لے لینا مجھ سے۔ ایک بار میں نے سوچا۔ پھر اچانک اُسے خیال آیا۔” نہیں یار رہنے دو، شام میں آکر نکلوا لیں گے”۔ (اچھااااااااااااااااااااااا) پھر دوسرے ہی لمحے نہیں یار ابھی بھجوا دیتے ہیں شام میں کہاں آنا ہوگا۔

پیسے نکلوانے یو بی ایل گئے تو خالم خالی۔ بس عملہ بیٹھا تھا، حیرت ہوئی کہ یہاں تو بڑا پُرسکون ماحول ہے۔ خیر عملہ پاکستانی تھا تو آپ کو جلدی فارغ تھوڑی نا کرنا تھا اُنھوں نے۔ آدھ گھنٹہ انھوں نے بھی لگا دیا۔ اب نئی بات شروع ” یار انہوں نے ریٹ کم لگایا ہے، واپسی پر ایچ بی ایل سے ریٹ پوچھ کر جاتے ہیں ”۔میں نے کہا ” یو گو، آئی وونٹ کم”۔ تو منہ بنا لیا اور یہ جا وہ جا۔ میں نے شکر کیا کہ جان چھوٹی۔

اُس بندے نے سارا دن فلیٹ پہنچ کر میری کسی بات کا جواب نا دیا اور مُنہ بنا کر کمرے میں بیٹھا رہا۔ او بھائی؟؟؟ مجھے سمجھ کیا رکھا ہے ؟؟ نوکر ؟؟ مجال ہے تو اُس نے کبھی فلیٹ کی صفائی کی ہو، فلیٹ کی چھوڑیں اپنے کمرے کی صفائی وہ تو کرنی چائیے نا۔ پر نہیں۔ کہتے ہیں ” یار کیا کرنی ہے صفائی کرکے”۔ اور بھائی صفائی نہیں کرنی تو گند بھی نہ ڈالا کرو۔ اور اگر ڈالتے ہو تو صاف بھی کر لیا کرو۔برتن سنک میں پڑے ہیں تو پڑے رہیں، شاید ہی کبھی دھوئے ہوں۔ کھانا خود بنانا نہیں آتا اور جن کبھی بنا لیں تو کبھی نمک کم تو کبھی مرچ تیز۔ میں تو کھاتا نہیں تھا کھانا پر مجبورا ایک نوالہ ضرور چیک کرواتا۔ جسے کھا کر عجیب سی کیفیت ہوتی۔ اور پھر اُسی کھانے کی جب تعریف کی جاتی کہ ”یارررررر۔۔ کیا زبردست کھانا بنایا ہے میں نے”۔ اچھا یہ زبردست تھا؟؟؟ زبیدہ آپا تک کوئی یہ بات پہنچا دے کہ اُن سے اچھا کھانا بھی کوئی بنا رہا ہے۔ اور پھر اگلے دن جتنا کھانا تھا سب کچرے میں۔ کیوں پھینک رہے ہیں ؟؟ ”یار ایک چیز روز روز نہیں کھائی جاتی”۔ اچھاااااااااااااااااااااااااااااااااااااا

تو بھائی پکاتے ہو تو کھایا تو کرو جب اتنی اچھی بنی ہے اور اللہ کے رزق کو ضائع تو نہ کیا کرو۔

مُنہ زبانی تو بہت بار کہہ چکا، اب ہاتھ زبانی بات ہوگی۔ اللہ مجھے صحت اور تندرستی عطا فرمائے۔آمین۔

 

 

11 comments:

علی said...

بیسٹ آف لک۔۔۔

انکل ٹام said...

سر جی میں تو اسی لیے سوچا ہوا ہے کہ اگر زندگی میں کبھی گھر والوں کے بغیر رہنا پڑے تو کبھی شیرنگ ویرنگ کےچکر میں نی پڑنا ۔۔۔ اکیلا ہی رہنا ہے ۔۔۔ ویسے بھی میں تنہائی پسند انسان ہوں دنیا کے ساتھ گزارا نی ہو سکتا :ڈ

دن رات said...

لکی ہیں آپ ۔۔

دن رات said...

کل ٹاکرا ہو ہی گیا۔ اب سڑا بیٹھا رہتا ہے۔ :)

سعید said...

خدا حامی و ناصر ہو آپکا

دن رات said...

آمین۔۔

راشدادریس رانا said...

اللہ رحم کرے بھائی آپ پر، ویسے ہیں کدھر آپ مطلب کونسے ملک میں ، کیوں کہ میں بھی یو اے ای میں ہی ہوں، اور میرے ساتھ ایک نہیں پورے تین "میلے" ہیں، ہم لوگوں کا چھے کا گروپ ہے اورپورا فلیٹ ہمارے پاس ہے، بس ان سب کو کہہ کہہ کر کام کرانا پڑتا ہے بس یہ شکر ہے کہ ان کا کمرہ الگ ہے اور ہم دو دوست الگ روم میں ہیں، لڑائی کی نوبت آتی ہے کھا نا بنانے پر۔ بس پردیس میں ایسے ہی وقت گزارنا پڑتا ہے۔ ہم آپ کے لیئے دعا کرتے ہیں آپ ہمارے لیئے دعا کریں۔

شکریہ

دن رات said...

منامہ، بحرین۔ آپ بھی بحرین میں ہیں ؟؟

دن رات said...

اللہ آپ کے لیے آسانیاں فرمائے آمین۔۔

toto4103 said...

دو چار ہاتھ لگا دیتے بیچارے کا مستقبل سنور جاتا؛ڈ

دن رات said...

زبان کی طاقت بہت ہوتی ہے وہی کافی تھی اس کے لیے ۔۔

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی