Friday, December 14, 2012

2012ء

نومبر 2011ء میں یہاں آنا ہوا۔ سال کا آغاز یوں کہوں تو تبھی شروع ہوا۔ ایکسائٹمنٹ بہت تھی۔ پردیس میں آنا اور کام کرنا، اپنی فیملی سے دور یہ سوچ کر کہ اُن کے لیے کچھ کرنے کا موقع مل رہا ہے اور اسے پوری طرح سے استفادہ حاصل کرنا ہے۔
پہلے چند دن تو ہیلو ہائے میں نکل گئے۔ پھر کام سے زور پکڑا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور ہمیں گھماتا رہا۔
دسمبر میں پہلی خوش خبری ملی جب آیان پیدا ہوا۔ ایک بیٹے کے باپ ہونے پہ بہت فخر محسوس ہوتا ہے ایسا لگا مجھے۔ کل 15 دسمبر کو وہ ایک سال کا ہوجائے گا۔ اب تک صرف سکائیپ پہ دیکھا یاں تصویروں میں۔
والد کی طبعیت 26 دسمبر کو خراب ہوئی، مجھے آئے ایک ماہ ہوا اور یہ خبر، دل کرتا تھا واپس لوٹ جاؤں ایسے طرح طرح کے خیالات نے دماغ خراب کر رکھا تھا۔
سال کی پہلی تنخواہ جب بیک ٹرانسفر ہوئی تب بھی بہت خوش ہوا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ میری پہلی تنخواہ میرے والد کی بیماری میں کام آئی، والدہ کی دعائیں رنگ لائیں۔ والد صحتیاب ہوئے پر ڈائلاسس کا ایک پراسس شروع ہوگیا جو اب تک چل رہا ہے۔
14 فروری 2011ء میں یہاں انقلاب لانے کی کوشش کی گئی تھی اس کی سالگرہ منانے کے لیے سب لوگ پھر زور لگانے لگے۔ بڑا شوق ہوا کہ دیکھیں کہ انقلاب آتا کیسے ہے پر کچھ نہ ہوا، ساری ایکسائیٹمنٹ دھری کی دھری رہ گئی۔
مارچ اپریل مئی یہ تین ماہ بہت مشکل گزارے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے واقف ہونگے کہ کمپنی جب تنخواہ کسی وجہ سے روک لیتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان تین ماہ میں پیسوں کی قدر کرنا سیکھا۔ دو کی بجائے ایک روٹی پہ گزارا کرنا سیکھا۔ یہی سوچتے تھے کہ کمیٹی ڈالی ہوئی ہے کسی نہ کسی ماہ تو نکلے گی۔
جون میں کہیں تنخوائیں ملنا بحال ہوئیں۔ انابیہ کی تیسری سالگرہ 9 جون کو تھی سکائیپ پہ بیٹھ کہ سب کو دیکھا ۔ آیان بڑا ہو رہا تھا۔ بہت خوش ہوتا تھا دیکھ کر۔۔۔
جولائی -اگست میں اپنی ایک خواہش پوری کی، ایک لیپ ٹاپ جو میرے اپنے پیسوں کا تھا اپنی پسند کا۔
ستمبر زیادہ دیر کام میں ہی مصروف رہے، ستمبر کے آخر میں پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کر دی اس طرح اور مصروف ہوگیا۔ چار پیسے اور جُڑنے لگے۔ والد کا فون آیا کہ میرا ریڈیو خراب ہوگیا ہے میں نے لبیک کہا اور بجوا دیا۔ والد کی ایک ننھی خواہش پورا کرنا بیٹے کو کیسا لگتا ہے وہ محسوس کیا۔
اکتوبر میں بھائی کہ ایک خواہش اصلی رےبن گلاسس کہ جب وہ دفتر پہن کے جائے تو کئی یہ نہ کہے کہ چائنا کی ہے وہ بھجوائی۔ انٹرل آڈٹر ہے ہیرو لگ رہا تھا پہن کے، ایک بھائی کو دوسری بھائی کو دیکھ کر جو خوشی ہوتی ہے وہ محسوس کی۔
نومبر میں چھوٹی بہن کے لیے ایک لیپ ٹاپ بھجوایا جو اسے ابھی ملا نہیں کہ اُس کے پیپرز ختم ہو جائیں تو پھر ملے۔
دسمبر ابھی گزر رہا ہے ۔ چھٹیاں بہت ہوتی ہیں سرکاری محکموں میں یہاں۔ اور پھر چھٹیوں کی کمپنسیشن وہ الگ۔ بور ہی گزر جاتی ہیں۔
عیدیں گھروالوں کے بغیر گزار دیں۔
میں نے اس سال بہت کچھ سیکھا اور اللہ کا شکر گزار ہوں۔ والد اور والدہ کی دعائیں میرے ساتھ رہیں، بیوی بچوں کا پیار ساتھ رہا، بھائی بہنوں کی حوصلہ افزائی میرے ساتھ رہی۔

Tuesday, October 23, 2012

جو ہوا اچھا ہوا ۔۔۔

اللہ نے جو فیصلے جب جب کرنے ہوتے ہیں تب تب ویسے ہو جاتے ہیں۔ ہماری قیاس آرئیاں ، سوچیں ، فیصلے اور ان کے نتیجے ہمیشہ ویسے نہیں ہوتے جیسا ہم پریڈیکٹ کر رہے ہوتے ہیں۔

چند دن پہلے میرا لکھا گیا بلاگ “یاں انّے تے یاں بنّے“ کچھ ایسے ہی احساسات کا نچوڑ تھا جو میں پریڈیکٹ کر رہا تھا۔ وہ کل جو آنی تھی وہ آئی اور آ کر چلی بھی گئی۔

بحث مباحثہ ہوا، بات کھلی، آپس میں انٹرایکشن ہوا کچھ وہ سمجھا کچھ میں سمجھا، نیتجہ یہ نکلا کہ بہت سے باتوں سے پردہ اٹھا، آنکھیں‌کھلیں ہم دونوں کی۔ یہ ملاقاتیں گر ہوتی رہیں تو باقی مسئلے مسائل بھی حل ہو جائیں‌گے۔ پر میں جیسا پریزیوم کئے بیٹھا تھا ویسا کچھ نہیں ہوا۔ شاید اس دن کی مانگی دعا قبول ہوئی یاں پھر ایسا ہی ہونا تھا۔ پر جو ہوا اچھا ہوا۔

دل و دماغ کو سکون پہنچا، پرسکون نیند آئی۔

Saturday, October 20, 2012

یاں انّے یاں بّنے

پچھلے دو ہفتے سے طبعیت میں عجیب سی بےسکونی بے چینی سے محسوس کر رہا ہوں۔ جتنا میں اُس بارے میں کم سوچنا چاہتا ہوں، میری سوچ اس بات کے اردگرد اور گھومنا شروع ہوجاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو ان دوہفتوں میں میرا کام میں بالکل بھی من نہیں لگا، جب تک کچھ باتیں کلئیر نہیں ہو جاتیں شاید تب تک ایسا ہی رہے یاں اس کے بعد بھی۔


دل کرتا ہے کہ بس سب چھوڑ چھاڑ کے کہیں بھاگ جاؤں، پر بھاگ کے کہاں جاؤں یہاں تو چاروں طرف سمندر ہے ڈوب جاؤں گا۔ اور یہ بھی کہ میں بزدل بھی نہیں کہلوانا چاہتا کیونکہ میں بزدل بھی نہیں۔ فیس کرنا چاہتا ہوں پھر دل کو دھڑکا بھی لگا رہتا ہے، پیٹ میں مڑوڑ پڑتے ہیں جیسے سالانہ نتیجے سے پہلے بچوں کو پڑتے ہیں۔


اور بھائی کیا چاہتے ہو مجھ سے کیوں مجھے پریشان کر رکھا ہے، کیا بگاڑ دیا میں نے تمھارا؟؟ بولو جواب دو۔


دل تو کرتاہے جاؤں اور دھڑلے سے جا کے کہہ دوں کہ پپو یار تنگ نا کر ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ !!!


میرے بس میں اس وقت کچھ نہیں ، سب اللہ کے ہاتھ میں دے رکھا ہے وہی میری تقدیر کا فیصلہ کرنے والا ہے، اب کر بھی دے، نا مجھے اور مشکل میں ڈالے۔


میری تیاری نہیں اس امتحان کے لیے۔ جو ہونا ہے ہوجائے، کل ہی ہوجائے یہ دعا اور التجا ہے میری۔ کچھ ایسا کردو کہ میں اس بھنور سے باہر نکلوں، یاں انّے یاں بّنے۔

Wednesday, April 18, 2012

اپنے گھر میں

منہ دھو کر جب اس نے مڑکر میری جانب دیکھا
مجھ کو یہ محسوس ہوا جیسے کوئی بجلی چمکی ہے
یا جنگل کے اندھیرے میں جادو کی انگوٹھی دمکی ہے

صابن کی بھینی خوشبو سے مہک گیا سارا دالان
اُف ۔۔۔ ان بھیگی بھیگی آنکھوں میں دل کے ارمان
موتیوں جیسے دانتوں میں وہ گہری سرخ زبان
دیکھ کر گال پہ ناخن کا مدھم سا لال نشان
کوئی بھی ہوتا میری جگہ پر ، ہوجاتا حیران

( منیر نیازی )

Thursday, April 12, 2012

محبت کرنے والے دل ...

محبت کرنے والے دل

محبت کرنے والے دل
بس انکا ایک ہی محور
بس انکا ایک ہی مرکز
بس انکی ایک ہی منزل
بس انکی جستجو کا اور تڑپ کا
ایک ہی حاصل
انہیں بس ایک ہی دھن ہے
خدا محبوب کو ان کے
ہمیشہ شادماں رکھے
نا اسکا دل کبھی ٹوٹے
نا کوئی سانحہ گزرے
کوئی غم چھو نہیں پائے
اداسی پاس نا آئے
محبت کرنے والے دل
بہت حساس ہوتے ہیں
محبت کرنے والے دل
کبھی سودا نہیں کرتے
نا کوئی شرط رکھتے ہیں
نا ان کے معاوضے کی حرص ہوتی ہے
کسی رد عمل سے یا بدلے سے
انکو کیا مطلب
انا سے انکا کیا رشتہ
جفا سے کیا علاقہ
انہیں تو ایک ہی دھن ہے
خدا محبوب کو ان کے
ہمیشہ شادماں رکھے



خلیل اللہ فاروقی

Wednesday, April 11, 2012

مینوں کجھ ہو جاوے تے...

                                              یہاں ”عنایت سویٹس” بہت مشہور دکان ہے،جہاں سب پاکستانی چٹ پٹی اور مزےدار چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔پکوڑے، سموسے، دہی بھلے، فروٹ چاٹ، فالودہ، ہر قسم کی مٹھائی ۔ بحرین میں اور بھی سویٹس کی دکانیں ہیں پر عنایت سویٹس کا کوئی ثانی نہیں۔ جناب کم و بیش تیس سال سے یہاں مقیم ہیں، اور ماشاءاللہ بہت اچھا بزنس کر رہے ہیں۔


میرا دل کچھ چٹ پٹا کھانے کو کر رہا تھا، اپنے کولیگ سے ذکر کیا تو اس کا بھی دل للچایا۔ دونوں گپیں مارتے، بازار سے ہوتے عنایت کی دکان پر پہنچے۔ رستے میں میں زکریا صاحب کا ذکر کر رہا تھا جو میرے والد کے اچھے دوست تھی اور بحرین میں کافی عرصہ سے مقیم تھے۔ میں نے سوچا کہ عنایت سے اُن کے بارے دریافت کروں گا کہ اُن کی آرٹیفشل جیولری کی دکان بھی بازار میں ہی کہیں تھی اور والد صاحب کا سلام بھی پہنچانا تھا۔


کاؤنٹر پر آرڈر دیتے زکریا صاحب کے بارے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اُن کا اور اُن کے بڑے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔ سُن کر شاک لگا۔باقی دو بیٹے اب اُن کی شاپ سنبھلتے ہیں۔ عنایت نے اُن کی دکان کا پتہ سمجھایا اور واپسی پر اُن کی دکان پر جانے کا پروگرام بنا۔


پہلے سموسوں کی پلیٹ منگوا کر کھائی اور پھر بھلے۔ فارغ ہو کر کاؤنٹر کی طرف آئے تو کولیگ کو وہاں جلیبیاں پڑی نظر آئیں۔ اُس نے دو چار جلیبیاں لیں اور ہم زکریا صاحب کی دکان کی طرف چلنے لگے۔ وہاں پہنچے تو دکان بند تھی۔ کافی ٹائم ہوگیا تھا شاید اسی لیے۔ واپسی پر میرا کولیگ سارا رستہ عنایت کی بہت تعریف کرتا رہا کہ بہت اچھا بندہ ہے۔ سب تازہ پٹھائی وغیرہ بناتا ہے۔ اِس سے اچھے سموسے تو آج تک میں نے نہیں کھائے۔


کولیگ چونکہ میرا فلیٹ میٹ بھی ہے تو واپس آ کر اُس نے دودھ گرم کرنا شروع کیا۔میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے میں مصروف اور اتنا مگن کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ کب آیا اور ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھا۔ اُس نے جلیبیاں دودھ میں ڈالی اور کھانے لگا۔ آخری دو چار چمچ رہ گئے ہونگے تو معلوم نہیں کیا ہوا اُسے، زور زور سے چلانے لگا


”راتی میرا دھیاں ای رکھنا۔مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”


آئی واز لائک ۔” ہیںںںںںںںںںںں”


میں اس کا منہ دیکھنا شروع ہوگیا کہ اسے کیا ہوا اچانک؟؟


”او یار یہ عنایت بیپ بیپ بیپ، جلیبیاں ٹھیک نہیں۔ میرے منہ کا ذائقہ چینج ہو رہا ہے۔ باسی لگتی تھیں جلیبیاں”۔ اور نا جانے کیا کیا۔


یہ سب شور ختم ہوا۔ بعد میں اتنا ہنسے اس بات پر کہ پہلے اُس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا اور پھر ۔”مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”۔ :)

Tuesday, April 10, 2012

بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔

کل ایک مارننگ شو کی رپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھی۔ جس کا موضوع یہ سوال تھا


” کیا انعم کو عزیر کو معاف کر دینا چاہئے؟”


ہوسٹ رو رہی تھی۔ عزیر رو رہا تھا۔ انعم رہ رہی تھی۔ اُن دونوں کی  پیاری معصوم سی تین چار سال کی بیٹی باپ کو دو ماہ بعد دیکھ کر اُس سے لپٹ گئی، اور رونے لگی۔ اُس بچی کو دیکھ کر میرا دل بھی بھر آیا۔ جو نہیں جانتی تھی کہ وہ اس پروگرام میں کیوں آئی ہے، اُس کا باپ اتنے دن بعد اُس سے کیوں ملا ہے، اُس کی ماں اپنے خاوند سے الگ کیوں رہ رہی ہے۔


میزبان کے کہنے پر جب بچی نے اپنی ماں سے اپنے باپ کے لیے سفارش کی کہ ”امی گھر واپس چلیں نا”۔ تودیکھنے والے برداشت نہیں کر پائے ہوں گے۔


ابیھا(اگر میں غلط نہیں تو بچی کا نام تھا) جو اپنی ماں سے اِس معصوم سی خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔میاں بیوی کے جھگڑوں میں بچی ویران ہو رہی تھی۔ کافی منت سماجت کے بعد انعم نے عزیر کو معاف کیا اور عزیر نے بھی وعدہ کیا کہ وہ اب اچھا خاوند، اچھا باپ بن کے دکھائے گا۔


دیارِ غیر میں پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ابیھا کا سوال سُن کر مجھے اپنی بیٹی انابیہ کی یاد آئی جو جب بھی فون آتا ہے تو کہتی ہے ” بابا آپ گھر آجاؤ نا”۔


بیٹیاں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی