Thursday, March 29, 2012

ذرا ٹھہرو! ۔۔۔عاطف سعید

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

جُدائی آن پہنچی ہے

مجھے تم سے بچھڑنا ہے

تمھاری مسکراہٹ، گفتگو، خاموشیاں

سب کچھ بھُلانا ہے

تمھارے ساتھ گزرے صندلیں لمحوں کو

اس دل میں بسانا ہے

تمھاری خواب سی آنکھوں میں اپنے عکس کی پرچھائی کو محسوس کرنے دو

ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو

 

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

اذیت سے بھرے لمحے

بچھڑتے وقت کے قصے

کہ جب خاموش آنکھوں کے کناروں پر

محبت جل رہی ہوگی

کئی جملے لبوں کی کپکپاہت سے ہی

پتھر ہو رہے ہوں گے

مجھے ان پتھروں میں بین کرتی چیختی گویائی کو محسوس کرنے

دو ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو

 

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

تمھارے بعد کا منظر

دلِ برباد کا منظر

جہاں پر آرزوؤں کے جواں لاشوں پر

کوئی رو رہا ہوگا

جہاں قسمت محبت کی کہانی میں

جُدائی لکھ رہی ہوگی

مجھے ان سرد لمحوں میں سسکتے درد کی گہرائی کو محسوس کرنے دو

ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو

 

ذرا ٹھہرو!

مجھے محسوس کرنے دو

جُدائی آن پہنچی ہے

مجھے تم سے بچھڑنا ہے

اذیت سے بھرے لمحے

بچھڑتے وقت کے قصے

تمھارے بعد کا منظر

دلِ برباد کا منظر

ذرا ٹھہرو! مجھے محسوس کرنے دو

 

میں بھُلیا تے نئیں ۔۔۔

چھ سال ہوگئے نا !!! :) وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔

 شاید ہی میں کبھی لیٹ ہوا ہوں۔ رات آلارم بجا تو دیکھا کہ آج کا دن تو سپیشل ہے۔ اُس وقت تو میسج کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دفتر آتے ہی سب سے پہلے تمھیں میسج کیا۔

 اللہ تمھیں خوش رکھے۔ ڈھیر ساری دعائیں ہیں تمھارے لیے۔ خوش رہو، سُکھی رہو۔

 تم نے مجھے بہت برداشت کیا ہوگا اور آگے بھی کرنا پڑے گا۔  اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ تم جیسا دوست مجھے ملا۔

Wednesday, March 28, 2012

بھلا کیا پڑھ لیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں

بھلا کیا پڑھ لیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں



بھلا کیا پڑھ لیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں


 کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں

کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے

کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دُکھ پہ بھیگنا بُھولی نہیں آنکھیں

ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں

نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک شخص کو دِل سے لگا رکھتا

میں دُشمن کو بھی گنتا ہوں محّبت کے سفیروں میں

سبیلیں جس نے اپنے خون کی ہر سو لگائی ہوں

 میں صرف ایسے غنی کا نام لکھتا ہوں امیروں میں

بدن آزاد ہے، اندر میرے زنجیر بجتی ہے

 کہ میں مختار ہو کر بھی گنا جاؤں اسیروں میں

احمد ندیم قاسمی

عباس ۔ تا۔ بش۔۔۔

عباس ۔ تا۔ بش۔۔۔


ڈاکٹر محّمد یونس بٹ کی کتاب " افراتفریح " سے اقتباس ۔۔۔


عباس تابش کو عباس ۔ تا۔ بش کہنا ایسا ہی ہے جیسے عباس تا " آسمان " کہنا۔ پھر بش کے پاس امریکہ ہی نہیں ذاتی باربرا بھی ہے اور عباس کے پاس تو ذاتی باربر بھی نہیں بلکہ یہ تو باربر سے ایک شیو کروا لے تو وہ تین کے پیسے مانگتا ہے۔

دور سے ہر کوئی خوبصورت لگتا ہے یہاں تک کے اپنی بیوی بھی اچھی لگتی ہے اور جب وہ پاس ہوتی ہے تو بندے کو لگتا ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ لیکن عباس کو دور سے دیکھ کر لگتا ہے جیسے سیدھا قبلِ مسیح آپ ہی کو ملنے آ رہا ہے۔ اِدھر اُدھر یوں دیکھتا ہے  جیسے آپ کو بھاگنے کا موقع دے رہا ہو مگر جوں جوں قریب آتا ہے، پھر آتا ہی ہی، جاتا نہیں۔ اس کی عمر کیا ہے۔ اسے خود پتہ نہیں۔ جوں جوں اس کے مسائل بڑھتے رہے وہ سمجھتا رہا، بڑا ہو رہا ہے حالانکہ وہ تو عیں بچپن میں بوڑھا ہو گیا تھا۔ دیکھنے میں اس عمر کا لگتا ہے جس میں سب سے آسان کام شعر کہنا ہے مگر عباس نے نوجوانوں کے لئے شعر کہنا اتنا ہی مشکل کر دیا ہے جتنی اس نے مشکلیں سہی ہیں۔ اب تو مشکلیں سہہ سہہ کر یہ حالت ہو گئی ہے کہ دوست اسے خوش کرنے کے لئے لطیفہ نہیں سناتے، اپنی مشکل سناتے ہیں۔ بیٹھا ہوا ہو تو یوں لگتا ہے جیسے اس نے کبھی کوئی حرکت ہی نہیں کی۔ البتہ چلنے لگے تو یقین نہیں آتا کہ رکاوٹ کے بغیر رُک بھی سکے گا۔ یوں چلتا ہے جیسے ظفر اقبال صاحب کا دماغ چلتا ہے۔

عباس خواتیں کے پردے کے اس قدر حق میں ہے عورتوں سے باتیں بھی پردے میں ہی کرنا چاہتا ہے۔ عورتوں کے پاس یوں بیٹھتا ہے جیسے اعتکاف بیٹھا ہو۔ اتنا ٹھنڈا ہے کہ گرمیوں میں بھی لڑکیوں کو کمبل لے کر اس کے پاس بیٹھنا پڑتا ہے۔ ویسے وہ بڑا کامیاب خاوند ثابت ہوگا کیونکہ جو خالد احمد کے ساتھ گزارا کر سکتا ہے ، وہ ہر قسم کی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ 

یاداشت ایسی کہ غسل خانے کا دروازہ کھول کر بھول جاتا ہے کہ وہ آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو غسل خانے میں جا کر بھول جاتا ہے کہ وہ یہاں کرنے کیا آیا ہے۔ اور غزل کہہ کر لوٹ آتا ہے۔  آپ کی باتیں سُن کر یوں سر ہلاتا ہے جیسے جو بات آپ نے اس کے کان میں ڈالی ہے، اسے سر میں مِکس کر رہا ہے۔ جب کسی پسند کے بندے سے  کلام کرنا چاہے تو خودکلامی کرنے لگتا ہے۔

جسے دشمن نہ بنانا چاہے،اُسے گہرا دوست نہیں بناتا۔ البتہ دوستوں دشمنوں، سب کے ساتھ پیار سے ملتا ہے، اس لئے پتہ نہیں چلتا کہ کس ملنے والے کو دوست سمجھ رہا ہے اور کسے دشمن۔ دوستوں کا اس قدر خیال رکھتا ہے کہ اگر بیمار ہو جائے تو گھر گھر جاکر ان سے عیادت کرواتا ہے۔ ہر چیز کا حساب غزلوں سے کرتا ہے۔ ایک دن کسی نے کہا " آج مہینے کی پچّیس تاریخ ہے۔" اپنی غزلیں گِن کر کہنے لگا " نہیں چوبیس ہے ! "۔

اس ملنے کے بعد بھی بندے کی اس سے آدھی  ملاقات ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ آدھا آپ کے پاس اور نصف کہیں اور بیٹھا ہوتا ہے۔ ابھی تک تو اس کی نصف بہتر پھی کہیں اور  ہی ہے۔ انگریزی سے اس قدر لگاؤ ہے کہ اس نے جتنی بار بی۔اے کا امتحان دیا انگریزی کا پرچہ ضرور دیا۔ کالج میں کلاسفیلوز کے ساتھ یوں پھرتا ہے کہ بچوں کی فیس معاف کروانے آیا ہے۔ خوش خوراک ہے یعنی خوراک دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ لمبا فاصلہ پیدل طے کرتا ہے اگر زیادہ قریب جانا ہو تو رکشہ لے لیتا ہے۔

وہ بڑا حساس ہے۔ دوسروں سے اکثر اسے ہمدردی ہو جاتی ہے اور اس کے لئے دوسرے کا مصیبت میں مبتلا ہونا ضروری نہیں۔ بس خوبصورت ہونا ضروری ہے۔ اسے دُنیا کا ہر خوبصورت انسان مظلوم نظر آتا ہے اور وہ عباس کے پاس بیٹھا ہوا ہو تو واقعی لگنے بھی لگتا ہے۔ عباس اپنی نسل کے شاعروں میں سب سے آگے ہے مگر وہ وقت دور نہیں جب اس کا پیٹ اس سے بھی آگے نکل جائے گا۔ کہتا ہے اس میں غزلیں ہیں ! غزلیں ! اگر یہ سچ ہے تو یہ پہلی تخلیق ہے جہ مہینوں کے بجائے منٹوں میں یہاں سے نکلتی ہے۔ عباس گا بھی لیتا ہے مگر اس کے گانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دوسروں کو سنائی نہیں دیتا۔ اس درد سے گاتا ہے کہ سننے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ اسے درد ہو رہا ہے۔

عباس کی دوسری کتاب کا نام " آسمان " ہے جو مجھے اس لئے پسند ہے کہ آسمان کا رنگ بلیو ہوتا ہے اور سنا ہے فلم اور قلم بلیو ہی زیادہ چلتی ہے۔ جہاں تک عباس۔ تا۔ بش کی بات ہے تو میں نے دونوں کے نام اس لئے اکٹھے نہیں کئے کہ لوگوں کی عباس کے بارے میں بھی وہی رائے ہے جو بش کے بارے میں ہے بلکہ اس لئے کہ صدر بش " نیو ورلڈ آرڈر " دے رہا ہے تو عباس کی اُردو شاعری” نیو ورڈ آرڈر”

Tuesday, March 27, 2012

بلاگ پرابلم ۔۔۔

بلاگ پر ایک پرابلم آ رہی ہے اور کافی ممبران شکایت بھی کر رہے ہیں کہ آپ کے بلاگ پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ورڈپریس کا اکاؤنٹ ہونا لازم ہے۔ اور کچھ حضرات کے تبصرے تو مجھے سپیم میل میں بھی ریسیؤ ہو رہے ہیں۔ میں نے تمام پرائیوسی آپشن ان چیک کر دیئے ہیں، پر مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مختلف بلاگز پر اور فورمز پر بھی اس پرابلم کے بارے پوچھ چکا ہوں پر کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔میں نے سوچا ہے کہ اگر یہ حل نہیں ہوتا تو رہنے دیں۔ جن حضرات کو میرا بلاگ پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا دل کرے وہ ورڈپریس کا اکاؤنٹ بنا لے پر تبصرہ کرے، اس طرح گمنام پیغامات ارسال کرنے والوں سے بچا رہوں گا اور تبصرہ کرنے والوں کی سوچ سے بھی واقف ہو جاؤں گا۔ کیسا ؟؟؟ :)

تو جناب کُھل کر تبصرہ کریں پر چُھپ کر نہیں، ویسے بھی گمنام لوگ خطرناک ہوتے ہیں۔ میں خود کافی عرصہ گمنام رہا ہوں اور تمام گمنام سرگرمیوں سے واقف ہوں۔ ہاں البتہ جیسے ہی یہ مسئلہ کوئی کلیر کرواتا ہے تو آپ سب کو گمنام پیغامات ارسال کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا آخر یہ آپ کا حق ہے۔ ممبران کے تبصرے مجھے ای میل کے ذریعے موصول ہوتے ہیں جنھیں میں منظور یا نامنظور کرنے کا حق رکھتا ہوں۔

میرے چند بہنیں بلاگ تھیم کے بارے بھی شکایت کر رہی تھیں کہ لکھائی پڑھی نہیں جاتی (عینک لگوانی پڑئے گی) اور بیک گراؤنڈ رنگ کالا ہے تو میں دو دنوں میں دو بار تھیم بدل چکا ہوں، اب بھی کسی کو شکایت ہے تو تھیم پھر بدل دیا جائے گا۔ کوئی اچھا سا تھیم ورڈپریس میں ہو تو ضرور بتائیں۔ اور ایک بات کہ یہ دفتری سسٹم ہے اور یہاں سب سافٹوئیرز آئی۔ٹی ڈیپارٹمنٹ انسٹال کرکے دیتا ہے، اُردو فانٹ میں نے کچھ انسٹال کروائے تھے پر ورڈپریس میں شو نہیں ہوتے، اس کی بھی رہنمائی فرمائیں۔

اچھے اور مفید مشوروں پر عمل کیا جائے گا۔

انشاءاللہ۔ اللہ سب کو تندرستی اور صحت عطا فرمائے۔ آمین۔

 

 

عید ملنا ۔۔۔

یہ تحریر بھی کافی عرصہ پہلے شئیر کی گئی تھی، اب ورڈپریس پر شئیر ہو رہی ہے ۔۔

عید ملنا ۔۔۔


مرزا صاحب ہمارے ہمسائے تھے، یعنی ان کے گھر میں جو درخت تھا، اس کا سایہ ہمارے گھر میں بھی آتا تھا۔ اللّہ نے انہیں سب کچھ وافر مقدار میں دے رکھا تھا۔ بچّے اتنے تھے کے بندہ ان کے گھر جاتا تو لگتا سکول میں آگیا ہے۔ان کے ہاں ایک پانی کا تالاب تھا جس میں سب بچّے یوں نہاتے رہتے کہ وہ تالاب میں 500 گیلن پانی بھرتے اور سات دن میں 550 گیلن نکالتے۔وہ مجھے بھی اپنے بچّوں کی طرح سمجھتے یعنی جب انہیں مارتے تو ساتھ مجھے بھی پیٹ ڈالتے، انہیں بچّوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا سخت ناپسند تھا۔ حلانکہ ان کی بیگم سمجھاتیں کے مسلمان بچّے ہیں، آپس میں نہیں لڑیں گے تو کیا غیروں سے لڑیں گے۔ایک روز ہم لڑ رہے ھے، بلکہ یوں سمجھیں رونے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یوں بھی رونا بچّوں کی لڑائی کا ٹریڈ مارک ہے۔ اتنے میں مرزا صاحب آگئے۔

" کیوں لڑ رہے ہو "

ہم چپ ! کیونکہ لڑتے لڑتے ہمیں بھول گیا تھا کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔انہوں نے ہمیں خاموش دیکھا تو دھاڑے، " چلو گلے لگ کر صلح کرو "۔ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ ہم ڈر کے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس بار جب میں نے لوگوں کو عید ملتے دیکھا تو یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی ہماری طرح صلح کر رہے ہیں۔

عید کے دن گلے ملنا، عید ملنا کہلاتا ہے۔پہلی بار انسان اس دن گلے ملا، جب خُدا نے اسے ایک سے دو بنایا۔ یوں آج بھی گلے ملنے کا عمل دراصل انسان کے ایک نہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ عمل ہمیں دوسرے جانوروں سے مماز کرتا ہے کہ وہ گلے پڑ تو سکتے ہیں، گلے مل نہیں سکتے۔

ہمارے یہاں عید ملنا، عید سے بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ دکاندار گاہکوں سے کلرک سائلوں سے اور ٹریفک پولیس والے گاڑی والوں کو روک روک کر ان سے عید ملتے ہیں۔بازاروں میں عید سے پہلے اتنا رش ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرنا بھی عید ملنا ہی لگتا ہے۔ کچھ نوجوان تو لبرٹی اور بانو بازار میں عید ملنے کی ریہرسل کرنے جاتے ہیں۔

عید کے دن خوشبو لگا کر عیدگاہ کا رُخ کرتا ہوں۔ واپسی پر کپڑوں سے ہر قسم کی خوشبو آرہی ہوتی ہے سوائے اس خوشبو کے جو لگا کر جاتا ہوں۔عید مل مل کر وہی حال ہو جاتا ہے جو سو میٹر کی ھرڈل جیتنے کے بعد ہوتا ہے۔ اوپر سے گوجرانوالہ کی عید ملتی مٹی ایسی کہ جب واپس آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں تو گھر والے گردن نکال کر کہتے ہیں " جی ! کس سے ملنا ہے "

سیاستدان تو عید یوں ملنے نکلتے ہیں، جیسے الیکشن کمپین پہ نکلے ہوں۔ جیتنے سے پہلے وہ عید مل کر آگے بڑھتے ہیں اور جیتنے کے بعد عید مل کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔پنجاب کے ایک سابق گورنر کا عید ملنے کا انداز نرالہ ہوتا تھا۔ ان کا حافظہ ہمارے ایک ادیب دوست جیسا تھا جو ایک ڈاکٹر سے اپنے مرضِ نسیان کا علاج کروا رہے تھے، دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد ایک دن ڈاکٹر نے پوچھا " اب تو نہیں بھولتے آپ " " بالکل نہیں، مگر آپ کون ہیں اور کیوں پوچھ رہے ہیں "

وہ سابق گورنر بھی عید پر معززیں سے عید ملنا شروع کرتے، ملتے ملتے درمیان تک پہنچتے تو بھول جاتے کہ کس طرف کے لوگوں سے مل لیا اور کس طرف کے لوگوں سے ابھی ملنا ہے۔ یوں وہ پھر نئے سرے سے عید ملنے لگتے۔ ایسے ہی ایک صاحب تیز دریا عبور کرنے کی کوشش میں تھے مگر عین دریا کے درمیان سے واپس پلٹ آئے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے، دراصل جب میں دریا کے درمیان پہنچا تو بہت تھک گیا سو واپس لوٹ آیا۔

شاعر وہ طبقہ ہے جو خوشی غمی دونوں موقعوں پرشعر کہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکھ کرپان کے بغیر، بنگالی پان کے بغیر اور شاعر دیوان کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا۔ اس لئے شاعر عید ملنے کے لئے بھی مشاعرے ہی کرتے ہیں۔ یوں مشاعروں کو لفظوں کا عید ملنا کہہ لیں اگرچہ وہ ہوتی تو لفظوں کی ہاتھاپائی ہے۔

بچّے پیار سے عید کو عیدی کہتے ہیں۔ اس لئے ان کو عیدی ملنا ان کا عید ملنا ہے۔ عورتیں بھی اکٹھی ہو کر عید ملتی ہیں، لیکن جہان چار عورتیں اکٹھی ہوں ویاں وہ ایک دوسرے سے نہیں، پانچویں سے خوب خوب ملتی ہیں۔ اور کوئی وہاں سے اٹھ کر اس لئے نہیں جاتی کہ جانے کے بعد وہاں بیٹھی رہنے والیاں اس سے " عید ملنا " نہ شروع کر دیں۔

عید کے روز امام مسجد سے عید ملنے کا یہ طریقہ ہے کہ اپنی مُٹھی مولوی صاحب کی ہتھیلی پر یوں رکھیں کہ ان کے منہ سے جزاک اللّہ کی آواز نکلے۔ چھوٹے شہروں میں نوجوانوں کی اکثریت سینما گھروں میں بھی عئد ملنے جاتی تھی۔ بکنگ کے سامنے وہ عید ملن ہوتی ہے کہ جو سفید سوٹ پہن کر آتا ہے وہ براؤن سوٹ بلکہ کبھی کبھی تو کالے سوٹ میں لوٹتا ہے، اکثر بنیان میں بھی واپس آتے ہیں۔ عید ملنا وہ ورزش ہے جس سے وزن بہت کم ہوتا ہے۔ میرا ایک دوست بتاتا ہے کہ بیرونِ ملک میں نے عید پر سو پاؤنڈ کم کئے۔
ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب " افرتفریح " سے اقتباس ۔۔۔

Monday, March 26, 2012

کوّے کی کائیں کائیں

بلاگ پر وزٹ کرنے والوں میں کچھ بحرینی بھی شامل ہیں، اُن سے گزارش ہے کہ آتے رہا کریں اور پڑھاتے رہا کریں۔:)

ٹی وی چینلز پر سوائے بُری خبروں کہ کچھ نہیں رہا۔ کل کے پورے خبرنامے میں ایک اچھی خبر نہیں تھی کل کیا گیارہ ستمبر کے بعد سے کوئی اچھی خبر شاید ہی سنی ہو۔

یہ نیوز کاسٹر صبح ضرور اپنے پیر و مرشد ”کوے” کو حاضری دے کر آتے ہونگے اور وعدہ کرتے ہونگے کہ آج سب سے زیادہ ”کائیں کائیں” میں کرکے آؤں گا۔ اور ٹی وہ چینلز بھی سب کو کائیں کائیں کرنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں۔اور خبرنامہ خبرنامے سے زیادہ قتلنامہ لگتا ہے۔

”جی سب سے پہلے آپ کو یہ خبر فلاں نیوز چینل پہنچا رہا ہے”۔

” جی بٹ کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟؟ کتنے لوگ مرے، کیا یہ خودکش حملہ تھا؟ کس گروہ نے ذمہ داری قبول کی ہے؟؟”۔

” آپ کو ایک بار پھر بتاتے چلیں، فلاں جگہ پر فلاں نے فلاں کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا ہے”۔

ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ فلاں سیاسی جماعت کے کارکن پر حملہ ہوا ہے”۔

یہ خبر سب سے پہلے ۔۔۔۔۔۔ وہ خبر سب سے پہلے ۔۔۔

چینل چینج کرو تو پچھلے چینلز سے بڑے کوّے کائیں کائیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اور مجال ہے کہ ایک بھی خبر پوری تصدیق کرنے کے بعد نشر کی گئی ہو۔ گلا کسی خبر کا ہوتا ہے اور دھڑ کسی خبر کا۔ اور مرچ مصالحے ڈال کر یہ نیوزکاسٹرز پیش کر دیتے ہیں۔

اور کبھی کبھار تو ایسی خبریں بھی نشر کی جاتی ہیں کہ بندہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ”یہ خبر تھی !!”۔

”فلاں اداکارہ آج اپنی اٹھارویں سالگرہ منا رہی ہیں”۔

تو بھائی منانے دو۔ہم بھی منایا کرتے تھے، ہماری خبر تو کبھی نہیں دی۔

”فلاں اداکارہ نے ہرن کے بچے گود لے لیے”۔

اچھا! ہیںںںںںںںںں ۔۔۔ انسانوں کے مر گئے کیا؟؟

”فلاں سیاستدان کو استثناء حاصل ہے”۔

کیوں بھئی؟؟ پھوپھی کا لڑکا ہے ؟؟ جو اُسے حاصل ہے، باقیوں کو نہیں۔ اور اگر حاصل ہے بھی تو مائی فُٹ۔

”فلاں سیاستدان بیرونی ملک دورے پر چلے گئے، وہاں سے وہ وہاں اورپھر وہاں بھی جائیں گے”۔

اچھا !! خود عیاشی، ہمیں تو ویزہ تک نہیں۔ اور اگر وہ باہر جا بھی رہے ہیں تو کون سا آپ کے لیے کچھ کر کر آئیں گے؟

سمجھ میں نہیں آتا کہ فلاں کی شادی، منگنی، ولیمہ، بیرونی ملک دوروں سے عوام کو کیا جو یہ خبر نشر کی جاتی ہے؟؟ جس کی بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ، تم لوگ کیوں اُس کی خبر بار بار نشر کرکے اُن کے قرب کو اور بڑھاتے ہو؟

”اس کو اب تب انصاف نہیں ملا۔ کیا انصاف ملے گا؟”۔آپ خود بتائیں کیا ہمارے ملک میں انصاف مل سکتا ہے ؟؟ پہلی بات تو یہ کہ انصاف وہاں ہو جہاں کوئی قانون ہو۔ او بھائی!! ہمارے ملک میں کہاں ہے قانون؟؟ کہیں نظر آیا کسی کو ؟؟

یہاں بیرونِ ملک رہنے والے لوگ ہمیشہ یہی بات کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کا جانے کیا بنے گا۔ خبرنامہ تو بہت گرم تھا آج۔

کب نہیں ہوتا گرم ؟؟

ہر خبر پر نظر۔ اور واقعی سب پر۔ حتی کہ کون کب باتھ روم آتا جاتا ہے۔ جیو تو ایسے۔ واقعی ایسے ہی جیو، مر کے مار کے۔

صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، کائیں کائیں ختم نہیں ہوتی۔

گُلابوں والی گلی ۔۔۔

یہ تحریر بھی کافی عرصہ پہلے شئیر کی گئی تھی، اب ورڈپریس پر شئیر ہو رہی ہے ۔۔

گُلابوں والی گلی  ۔۔۔



اس وقت کی بات ہے جب لڑکیاں آج کے زمانے سے زیادہ لڑکیاں ہوتی تھیں۔ شعبہِ نفسیات پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ نیلم کاغذ پر کچھ لکھ رہی تھی، اچانک احمد بشیر اس کے پاس آیا اور کہا " یہ بعد میں لکھ لینا پہلے ذرا شادی کر لو " اور حیران دیکھتی رہی۔ احمد بشیر کو حیران کرنے کی بُری عادت ہے، یہاں تک کہ لوگ نیلم، سنبل، بشرٰی انصاری اور اسماء وقاص کو اس کی بیٹیاں سمجھتے رہے۔ چاروں ادب و ثقافت میں آئیں تو بیٹا نِکلیں۔


نیلم احمد بشیر کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ وہ گھر میں نہیں ، لائبریری میں پیدا ہوئی ہے۔ وہ سب بہنوں سے بڑی تھی اور اب تک بڑی ہے۔ بچپن میں اس سے چھوٹی سی غلطی ہو جاتی تو احمد بشیر کہتا " تمھاری یہ جرات ! چھوٹی سی غلطی تو آج تک ہمارے خاندان میں کسی نے کی نہیں۔ " صبح اٹھ کر ناشتہ تیار کر کے ماں کہتی کہ اب آپ اٹھ جائیں، میں نے آپ کے دانت صاف کر دیئے ہیں۔ شکل ایسی کہ منٹو کو پڑھ رہی ہو تو لگتا ہے، بہشتی زیور پڑھ رہی ہے۔ ویسے وہ اتنی معصوم نہیں جتنی شکل سے لگتی ہے، اس سے زیادہ ہے۔ وہ تو اپنے ہاتھ سے اُبالے پانی کو بھی دوسروں سے زیادہ گرم سمجھتی ہے۔ بات ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نہیں نکالتی، منہ سے نکالتی ہے۔ بولنے کا اس قدر شوق ہے کہ اس کی بیشتر کہانیاں واحد متکّلم میں ہوتی ہیں۔ سوچتی انگریزی میں، بولتی پنجابی اور لکھتی اُردو میں ہے۔ لیکن سمجھتی کسی زُبان میں نہیں۔


اتنی نرم دل کہ ٹی وی ڈرامے میں کسی جاننے والے کو بیمار دیکھ لے تو اس کے گھر عیادت کرنے چلی جائے گی اور اگر کوئی سچ مچ بیمار ہو جائے تو اس قدر پریشان ہو جائے گی کہ اس کا چہرہ دیکھ کر بیمار کو اپنے بچنے کی کوئی اُمید نہیں رہے گی۔ یاداشت بہت بُری ہے۔ آپ سوچیں گے، کیا بات بھول جاتی ہے۔ جی نہیں ! ہر بات یاد رکھتی ہے۔ دوسروں کے دُکھ سُکھ میں اس قدر شامل ہوتی ہے کہ موچ کسی کے پاؤں میں آتی ہے اور چلا اس سے نہیں جاتا۔


مشہور گلوکارہ بننے کے لئے جو کچھ چاہئے، اس کے پاس ہے۔ گا بھی لیتی ہے پینٹینگ بھی کرتی ہے۔ ویسے تو ہر خاتون بُنیادی طور پر پینٹر ہوتی ہے لیکن " ف " کہتا ہے کہ یہ ضروری بھی نہیں، کچھ خواتیں میک اپ نہیں بھی کرتیں۔ اداکاری کا بھی شوق ہے۔ بشرٰی انصاری اور اسماء وقاص نے ت یہ شوق پورا کرنے کہ لئے ٹی وی ڈراموں میں کام کیا اور اس نے شادی کرلی۔ اس لحاظ سے وہ اپنی ذات میں انجمن ہے۔ مگر جنھوں نے اسے دیکھا ہے اور " انجمن " کو بھی دیکھا ہے، وہ نہیں مانتے۔


صبح گھر سے نکلتے وقت پہلے گاڑی تک آئے گی۔ اُسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ وہ چابیاں تلاش کر رہی ہے۔ محلّے والے سمجھتے ہیں، جوگنگ کر رہی ہے۔ کہتے ہیں جس دن نوکرانی پر غصّہ آئے تو اسے کچھ کہنے کے بجائے گھر کا سارا کام خود کرنے لگے گی۔ اس حساب سے تو ہر وقت غصّے میں رہتی ہے۔کہتی ہے میں نے ایک دن نوکرانی کو کہہ دینا ہے " میرے سے اب اتنا کام نہیں ہوتا تم کوئی اور مالکن رکھ لو۔ " مالی ہر مہینے والد کی وفات کا بہانا کر کے ایڈوانس اور چُٹھی لے جاتا ہے اور یہ ہر ماہ سخت دل کرکے فیصلہ کرتی ہے کہ اللّہ کرے اب اس کا والد فوت نہ ہو۔ اگر ہو گیا تو ایڈوانس اور چھٹی نہیں دونگی۔


اس کے گھر میں ہر قسم کا ساز و سامان ہے۔ میں نے اکثر سنا ہے، والدین نے بیٹی کو جہیز میں بڑا ساز و سامان دیا تاکہ اسے نیا گھر چلانے میں آسانی ہو۔ سامان کی تو سمجھ آ جاتی ہے، ساز کیوں دیتے ہیں۔ اس کا پتا نہیں۔ بہرحال اس کے پاس بڑی انٹیک چیزیں ہیں جو اس نے اس وقت خریدیں جب وہ نئی تھیں۔


پندرہ برس امریکہ اس گھر میں رہی، جہاں اس قدر سردی ہوتی کہ کار اور گفتگو اسٹارٹ کرنے کی کوشش میں گھنٹوں لگ جاتے، تب کہیں جا کر کار اسٹارٹ ہوتی۔ امریکی معاشرہ تو وہ ہے جہان ایک شادی کی تقریب میں ایک نئی آنے والی مہمان سے پوچھا کہ آپ دُلھے کی کون ہیں? تو اس نے جواب دیا کہ میں دُلھے کی بہن ہوں۔ تو پہلی عورت نے کہا " آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی میں دُلھے کی والدہ ہوں۔ " پندرہ سال ااس معاشرے میں رہنے کے بعد اس کی یہ حالت ہو گئی کہ دن میں دو بار بھی ملے تو یوں ملے گی جیسے پندرہ سال بعد مل رہی ہو۔


کہتی ہے مجھے بچپن ہی سے ادب سے لگاؤ تھا اس لئے جب سائنس ٹیچر نے کہا " مادہ پھیلتا ہے " تو اس نے فورًا تذکیر اور تانیثکی غلطی نکال کر کہا " مادہ پھیلتی ہے۔ " یہی نہیں وہ تو مادہ پرست بھی شادی شدہ کو سمجھتی ہے۔ نیلم کی عمر کے معاملے میں ان سے بہت کم عمر ہے جو اس سے زیادہ عمر کی ہیں اور ان سے تھوڑی سی بڑی ہے جو اس سے بہت کم عمر ہیں۔


دس سال کا بچّہ بھی اس سے گھنٹہ گفتگو کر لے تو وہ خود کو چالیس سال اور اُسے دس سال کا سمجھنے لگے گا۔ غلطی کرنے کے باوجود اسے پتا نہیں چلتا کہ اس نے غلطی کی ہے اسے تو شادی کے کئی سال بعد پتا چلا کہ شادی شدہ ہے۔


نیلم پندرہ سال امریکہ میں نامکمل کاغذ پکڑے حیران کھڑی دیکھتی رہی۔ بہر حال ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے اِس دوران کچھ نہیں کیا، ماشاءاللّہ تین بچّوں کی ماں ہے۔ گزشتہ دو سال میں اس نے پندرہ سال پہلے کا خالی کاغذ رنگوں سے بھرا تو اس کا نام " گلابوں والی گلی " رکھا۔ کہتی ہے میں نے علامتی افسانے لکھے ہیں، غلط کہتی ہے۔ ایک بار امتحان میں ممتحن نے " ف " سے پوچھا کہ انور سجاد کے اس علامتی افسانے کا مطلب کیا ہے؟؟ تو " ف " نے کہا " سر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے فیل کرنا چاہتے ہیں۔ " میں نے سنا ہے " گلابوں والی گلی " بڑی ننگی کتاب ہے۔ جب نیلم نے یہ کتاب مجھے دی تو واقعی ننگی تھی یعنی بغیر ٹائیٹل کور کے البتہ اس کو پڑھ کر میں خود کو ننگا محسوس کرنے لگا۔ مجھے لگتا ہے اب نیلم جسے لوگ احمد بشیر کے حوالے سے جانتے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ احمد بشیر کو لوگ نیلم کے حوالے سے جانیں گے۔


ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب " افرتفریح " سے اقتباس ۔۔۔

Sunday, March 25, 2012

کپاس کا پھول

کسی زمانے میں یہ تحریر نیٹ پر اپلوڈ کی تھی سوچا آج یہی شئیر کی جائے۔ احمد ندیم قاسمی کا بہترین افسانہ ”کپاس کا پھول”




کپاس کا پھول

مصنف : احمد ندیم قاسمی



     مائی تاجو ہر رات ایک دو گھنٹے تو ضرور سو لیتی تھی لیکن اس رات غصے نے اسے اتنا سا بھی سونے کی مہلت نہ دی۔      پو پُھٹے جب وہ کھاٹ پر سے اتر کر پانی پینے کے لیے گھڑے کی طرف جانے لگی تو دوسرے ہی قدم پر اسے چکر آگیا اور وہ گِر پڑی۔ گِرتے ہوئے اس کا سر کھاٹ کے پائے سے ٹکرا گیا تھا اور وہ بیہوش ہوگئی تھی۔

یہ بڑا عجیب منظر تھا۔ رات کے اندھیرے میں صبح ہولے ہولے گُھل رہی تھی۔ چڑیاں ایک دوسرے کو رات کے خواب سنانے لگی تھیں۔ بعض پرندے پر ہلائے بغیر فضا میں یوں تیر رہے تھے جیسے مصنوعی ہیں اور کوک ختم ہوگئی تو گِر پڑیں گے۔ ہوا بہت نرم تھی اور اس میں ہلکی ہلکی لطیف سی خنکی تھی۔ مسجد میں وارث علی اذان دے رہا تھا۔ یہ وہی سُریلی اذان تھی جس کے بارے میں ایک سکھ سمگلر نے یہ کہ کر پورے گاؤں کو ہنسا دیا تھا کہ اگر میں نے وارث علی کی تین چار اذانیں اور سُن لیں تو واہگرو کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میرے مسلمان ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اذان کی آواز میں گھروں میں گھمر گھمر چلتی ہوئی متھانیاں روک لی گئی تھیں۔ چاروں طرف صرف اذان حکمران تھی اور اس ماحول میں مائی تاجو اپنی کھاٹ کے پاس ڈھیر پڑی تھی۔ اس کی کنپٹی کے پاس اس کے سفید بال اپنے ہی خون سے لال ہو رہے تھے۔

مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ مائی تاجو کو تو جیسے بےہوش ہونے کی عادت تھی۔ ہر آٹھویں دسویں روز وہ صبح کو کھاٹ سے اُٹھتے ہو بےہوش ہوجاتی تھی۔ ایک بار تو وہ صبح سے دوپہر تک بےہوش پڑی تھی اور چند چونٹیاں بھی اسے مُردہ سمجھ کر اس پر چڑھ آئیں تھیں اور اس کی جُھریوں میں بھٹکنے لگی تھیں۔ تب پڑوس سے چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں پنجوں کے بل کھڑی ہو کر دیوار پر سے جھانکی تھی اور پوچھا تھا “ مائی آج لسّی نہیں لو گی کیا؟“ پھر اس کی نظر بے ہوش مائی پر پڑی اور اس کی چیخ سن کر اس کا باپ اور بھائی دیوار پھاند کر آئے تھے اور مائی کے چہرے پر پانی کے چھٹے مار مار کر اور اس کے منہ میں شکر ڈال ڈال کر خاصی دیر کے بعد اسے ہوش میں لائے تھے۔

حکیم منوّر علی کی تشخیص یہ تھی کہ مائی خالی پیٹ سوتی ہے۔ اس دن سے راحتاں کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ شام کو ایک روٹی پر دال ترکاری رکھ کر لاتی اور جب تک مائی کھانے سے فارغ نہ ہوجاتی وہیں بیٹھی مائی کی باتیں سُنتی رہتی۔ ایک دن مائی نے کہا تھا۔ “ میں تو ہر وقت تیار رہتی ہوں بیٹی کہ جانے کب اُوپر سے بُلاوا آجائے۔ جس دن میں صبح کو تمھارے گھر لسّی لینے نہ آئی تو سمجھ لینا میں چلی گئی۔ تب تم آنا اور اُدھر وہ چارپائی تلے صندوق رکھا ہے نا، اس میں میرا کفن نکال لینا۔ کبھی دِکھاؤں گی تمھیں۔ وارث علی سے کہہ کر مولوی عبدالمجید سے اس پر خاکِ پاک سے کلمہِ شہادت بھی لکھوا لیا ہے۔ ڈرتی ہوں کہ بار بار نکالوں گی تو کہیں خاکِ پاک جھڑ  نا جائے۔ بس یوں سمجھ لو کے یہ وہ لٹھا ہے جس سے بعض شہزادیاں بُرقعہ سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتا ہے یہ کپڑا۔ ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ بولتا ہے۔ چکّی پیس پیس کر کمایا ہے۔ میں لوگوں کو عمر بھر آٹا دیتی رہی ہوں اور ان سے کفن لیتی رہی ہوں۔ کیوں بیٹی یہ کوئی گھاٹے کا سودا تھا؟ نہیں تھا نا؟ میں ڈرتی تھی کے کہیں کھدّر کا کفن پہن کر جاؤں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی نا پسوانے لگیں۔ پھر اپنے پوپلے منہ سے مسکرا کر اس نے پوچھا تھا۔ “ تمھیں دیکھاؤں؟“۔

 ۔“ نا مائی“۔ راحتاں نے ڈر کر کہا تھا۔“ خاکِ پاک جھڑ گئی تو؟“۔ پھر اس نے موضوع بدلنے کی کوشش کی “ ابھی تو تم بیس سال کی اور جیوگی۔ تمھارے ماتھے پر تو پانچ لکیریں ہیں پانچ پیسیاں ہو!“۔

 مائی کا ہاتھ فوراً اپنے ماتھے کی طرف اُٹھ گیا۔ “ ہائے پانچ کہاں ہیں۔ کُل چار ہیں پانچویں تو یہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ توچھری کی نوک سے ذرا دونوں کو ملاوے تو شاید ذرا سا اور جی لوں۔ تیرے گھر کی لسّی تھوڑی سی اور پی لوں“۔ مائی کے پوپلے منہ پر ایک بار پھر گول سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

اس پر راحتاں نے زور سے ہنس کے آس پاس پھیلی ہوئی کفن اور کافور کی بُو سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کی مگر کفن اور جنازے سے مفر نہ تھا۔ یہی تو مائی کے محبوب موضوع تھے۔ ویسے راحتاں کو مائی تاجو سے اُنس ہی اس لیے تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے مرنے کی ہی باتیں کرتی تھی جیسے مرنا ہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہو اور جب مذاق میں ایک بار راحتاں نے مائی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اسے یہی کفن پہنا کر اپنے باپ کی منت کرے گی کہ مائی کا بڑا ہی شاندار جنازہ نکالا جائے تو مائی اتنی خوش ہوئی تھی کہ جیسے اُسے نئی زندگی مل گئی ہے۔ راحتاں سوچتی تھی کہ یہ کیسی بدنصیب ہے جس کا پوری دُنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے اور جب مری تو کسی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں ٹپکے گا۔ بعض موتی کتنی آباد اور بعض کتنی ویران ہوتے ہیں۔ خود راحتاں کا ننھا بھائی کنویں میں گِر کر مر گیا تھا تو کیا شاندار ماتم ہوا تھا ! کئی دن تک بین ہوتے رہے تھے۔ اور گھر سے باہر چوپال پر دور دور سے فاتحۃ خوانی کے لیے آنے والوں کے ٹھٹ لگے رہے تھے اور پھر انہی دنوں کریمے نائی کا بچہ نمونئے سے مرا تو بس اتنا ہوا کہ اس روز کریمے کے گھر کا چولھا ٹھنڈا رہا۔ ااور تیسرے ہی روز وہ چوپال پر بیٹھا چودھری فتح دین کا خط بنا رہا تھا۔ موت میں ایسا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ مر کر تو سب برابر ہوجاتے ہیں۔ سب مٹی میں دفن ہوتے ہیں۔ امیروں کے دفن کے لیے مٹی ولایت سے تو نہیں منگائی جاتی سب کے لیے یہی پاکستان کی مٹی ہوتی ہے۔

 ۔ “ کیوں مائی “۔ ایک دن راحتاں نے پوچھا۔ “ کیا اس دُنیا میں سچ مچ تمھارا کوئی نہیں؟“۔

   ۔ “ واہ، کیوں نہیں ہے !“۔ مائی مسکرائی۔

 ۔ “ اچھا!“۔ راحتاں کو بڑی حیرت ہوئی۔

 ۔ “ ہاں ایک ہے “۔ مائی بولی۔

راحتاں کو بڑی خوشی ہوئی کے مائی نے اسے ایک ایسا راز بتا دیا ہے جس کا گاؤں کے بڑے بوڑھوں تک کو علم نہیں۔ “ کہاں رہتا ہے وہ؟“۔ اس نے بڑے شوق سے پوچھا۔

 ۔ “ وہ؟“۔ مائی مسکرائی جا رہی تھی۔ “ وہ یہاں بھی رہتا ہے وہاں بھی رہتا ہے۔ دُنیا میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ نہ رہتا ہو۔ وہ بارڈر کے اُدھر بھی رہتا ہے بارڈر کے ادھر بھی رہتا ہے۔ وہ تو“۔

راحتاں نے بیقرار ہو کر مائی کی بات کاٹی۔ “ ہائے ایسا کون ہے وہ؟“۔

اور مائی نے اُسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔ “ خُدا ہے بیٹی، اور کون ہے!“۔

 راحتاں کو اس کے باپ کے ذریعے پتا چلا تھا کہ آج سے کوئی آدھی صدی ادھر کی بات ہے۔ گاؤں کا ایک خوبصورت پٹواری مائی تاجو کو یہاں لے آیا تھا۔ کہتے ہیں کے مائی تاجو اُن دنوں اتنی خوبصورت تھی کہ اگر وہ بادشاہوں کا زمانہ ہوتا تو مائی ملکہ ہوتی۔ اس کے حسن کا چرچا پھیلا تو اس گاؤں سے نکل کر پٹواری کے آبائی گاؤں تک جا پہنچا۔ جہاں سے اس کی پہلی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ یہاں آ دھمکی۔ پٹواری نے مائی تاجو کو دھوکہ دیا تھا کہ وہ کنوارہ ہے۔ تاجو نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف رو پیٹ کر اور نہر میں کود جانے کی دھمکی دے کر شادی کی تھی۔ اُوپر سے جب پہلی بیوی نے جب اپنا سینہ دو ہتڑوں سے پیٹنا شروع کیا اور پر دوہتڑ پر تاجو کو ایک گندی بساندی گالی تھما دی تو تاجو چکناچور ہو کر یہاں سے بھاگی اور اپنے گاؤں میں جا کر دم لیا۔ ماں نے تو اُسے لپٹا لیا مگر باپ آیا تو اسے بازو سے پکڑ کر باہر صحن میں لے گیا، اور بولا۔ “ چاہے پٹواری کی تین بیویاں اور ہوں، تمھیں اس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ تم نے اپنی پرضی کی شادی کی ہے ہمارے لیے یہی بےعزتی بہت ہے۔ اب یہاں بیٹھنا ہے تو طلاق لے کر آؤ ورنہ وہیں رہو چاہے نوکرانی بن کر رہو۔ ہمارے لیے تو تم اسی دن مر گئی تھیں جب تم نے پوری برادری کی عورتوں کے سامنے چھوکروں کی طرح اکڑ کر کہہ دیا تھا کہ شادی کروں گی تو پٹواری سے کروں گی ورنہ کنواری مروں گی۔ جاؤ ہم یہی سمجھیں گے کے ہمارے ہاں کوئی اولاد ہی نہیں تھی“۔      اس کی ماں روتی پیٹتی رہی مگر باپ نے ایک نہ مانی اور جب تاجو آدھی رات کو واپس اس گاؤں میں‌پہنچ کر اس پٹواری کے دروازے پر آئی تو اس میں تالا پڑا ہوا تھا۔ رات وہیں دروازے سے لگی بیٹھی رہی۔ صبح لوگوں نے دیکھا تو پنچایت نے فیصلہ کیا کہ تاجو پٹواری کی باقاعدہ منکوحہ ہے اس لیے اس کا پٹواری کے گھر پر حق ہے اور اس لیے تالا توڑ دو۔

 گاؤں والوں نے چند روز تک تو پٹواری کا انتظار کیا مگر اس کی جگہ ایک نیا پٹواری آنکلا۔ معلوم ہوا کہ اس نے کسی اور گاؤں میں تبادلہ کرا لیا ہے۔ گاؤں کے دو آدمی اسے ڈھونڈنے نکلے۔ اور جب وہ مل گیا تو پٹواری نے انھیں بتایا کہ اس نے ان کے گاؤں کا رخ کیا تو اس کی پہلی بیوی کے چھ بھائی اسے قتل کر دیں گے۔ “ میں نے یہ بات اپنی پہلی بیوی کو بھی نہیں بتائی کہ میں تمھارے گاؤں کے جس مکان میں رہتا تھا وہ میں نے خرید لیا تھا اور وہ میری ملکیت ہے، یہ مکان میں اپنی دوسری بیوی تاجو کے نام لکھے دیتا ہوں۔ میں اسے طلاق نہیں دوں گا۔ مجھے اس سے محبت ہے“۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگا تھا۔

  سو گاؤں والوں کی مہربانی سے پٹواری نے اسے طلاق کے بدلے مکان دے دیا۔ اور یہ بھی صبر شکر کر کے بیٹھ گئی کیونکہ اس کے پیٹ میں بچہ تھا۔ یہ بچہ جب پیدا ہوا تو اس کا نام اس نے حسن دین رکھا۔ محنت مزدوری کے کے سے پالتی پوستی رہی، مڈل تک پڑھایا بھی مگر اس کے بعد ہمت نہ رہی۔ تاجو کے حُسن کی وجہ سے اس پر ترس تو سب کو آتا تھا مگر پٹواری سے جُدا ہونے کے بعد وہ اپنی جوانی پر سانپ بن کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بھلے آدمی نے حسن دین کو اعٰلی تعلیم دلانے کا لالچ دے کر تاجو سے عقد کرنے کا خواہش ظاہر کی تو تاجو نے اس کی سات پشتوں کو توم ڈالا اور حسن دین کلہاڑی لے کر اس خُدا ترس کے پیچھے پڑ گیا۔ اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ حسن دین برگِ آوارہ پھرتا رہا۔ پھر جب اس کے عشق کرنے کا زمانہ آیا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کے بعد مائی تاجو کے چند برس اچھے گزرے۔ حسن دین حوالداری تک پہنچا۔ اس کے رشتے کی بھی بات ہوگئی مگر پھر دوسرے بڑی جنگ چھڑگئی، اور حسن دین اوہر بن غازی میں مارا گیا۔ تب مائی تاجو نے چکی پیسنی شروع کی۔ اور اس وقت تک پیستی رہی جب وہ ایک دن چکی کے پاٹ پر سر رکھے بےہوش پائی گئی۔ اس روز جب وہ ہوش میں آئی تھی تو حکیم کے ہاتھ کو چکی کی ہتھی سمجھ کر گھُما دیا تھا۔

 اگر اس کے پڑوس میں چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں نہ ہوتی تو وہ اپنی بار بار کی بےہوشیوں سے کسی بےہوشی کے دوران کوچ کر جاتی۔ وہ راحتاں سے کہا کرتی تھی کہ۔ “ بیٹی اگر میرا حسن دین ہوتا تو میں تجھے تیری شادی پر سونے کا ست لڑا ہار دیتی۔ اسے خدا نے اپنے پاس بُلا لیا سو اب میں ہر وقت تیرے لیے دُعا کرتی ہوں کے تو جُگ جُگ جئیے اور شادی کے بعد بھی اسی طرح سُکھہ رہے جیسے اپنے باپ کے گھر سُکھی ہے“۔

     ایک رات مائی تاجو کو اس بات کا غصہ تھا کہ جب اندھیری رات تک راحتاں اس کی روزانہ کی روٹی نہ لائی تو وہ خود ہی لاٹھی ٹیکتی فتح دین کے گھر چلی گئی۔ فتح دین کی بیوی سے راحتاں کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی کسی سہیلی کی شادی میں‌گئی ہے اور آدھی رات تک واپس آئے گی۔ پھر اس نے روٹی مانگی تو راستاں کی ماں نے بس اتنا کہا۔ “ دیتی ہوں۔ پہلے گھر والے تو کھا لیں“۔      راحتاں کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو فتح دین کے گھر والوں میں شامل سمجھتی تھی۔ اس لیے ضبط نہ کر سکی۔ بولی۔ “ تو بی بی، کیا میں بھکارن ہوں؟“۔

   سونے کی بالیوں سے بھرے ہوئے کانوں والی بی بی کو بھی مائی تاجو کسی مسکین عورت کے منہ سے یہ بات سن کر تکلیف ہوئی۔ اس نے کہا۔ “ نہیں مائی، بھکارن کو خیر نہیں ہو، مگر محتاج تو ہو نہ“۔

اور مائی کو کپکپی سی چھوٹ گئی۔ وہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔ اب دوبارہ راحتاں کی ماں نے اسے پکارہ بھی مگر اس کے کانوں میں تو شاں شاں ہو رہی تھی۔ گھر آکر آنگن میں‌پڑی کھاٹ کر گِر پڑی اور اپنی موت کو یوں پکارتی رہی جیسے وہ دیوار سے ادھر بیٹھی ہوئی اس کی باتیں سن رہی ہو۔

آدھی رات کو جب چاند زرد پڑ گیا تھا۔ دیوار پر سے راحتاں نے اسے پکارا۔

 ۔ “ مائی جاگ رہی ہو؟“۔

۔ “ میں سوتی کب ہوں بیٹی“۔ اس نے کہا۔

 ۔ “ ادھر آکر روٹی لو دیوار پر سے“۔ راحتاں بولی۔

 ۔ “ نہیں بیٹی راحتاں۔ نہیں لوں گی“۔ اس کی آواز بھر آنے لگی۔ “ آدمی زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے نہ۔ تو میں کب تک زندہ رہوں گی۔ جبکہ میں جدھر جاتی ہوں میری قبر میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ میں کیوں تمھارا اناج ضائع کروں بیٹی“۔

  راحتاں دیوار کے پاس کچھ دیر خاموش کھڑی رہی۔ پھر پنجوں کے بل کھڑی ہوکر بڑی منت سے کہا۔ “ لے لو مائی، میرا خاطر سے لے لو“۔

 ۔ “ نہیں بیٹی“۔ مائی تاجو کھل کر رو رہی تھی۔ “ لے لیتی پر آج تمھاری ماں نے مجھے بتایا ہے کہ میں محتاج ہوں اور چکی پیس پیس کر جو میرے ہاتھوں پر جو گٹے پڑ گئے ہیں وہ مجھے کچھ اور بتاتے ہیں۔ سو بیٹی یہ روٹی میں نہیں لوں گی۔ اب کبھی نہیں لوں گی۔ تمھاری لائی ہوئی کل شام والی روٹی میری آخری روٹی تھی۔ یہ روٹی اپنے کتے کے آگے ڈال دو“۔

اس کے بعد اس نے سنا کہ راحتاں اور اس کی ماں کے درمیان کچھ تیز تیز باتیں ہوئیں۔ پھر راحتاں رونے لگی اور اس کی ماں اسے ڈانٹنے لگی۔ اس کے بعد فتح دین کی آواز آئی۔

 ۔ “ سونے دو گی یا میں چوپال پر جا کر پڑ رہوں؟“۔

پھر جب سب خاموش ہوگئے تو مائی تاجو اٹھ بیٹھی۔ اسے لگا کے راحتاں اپنے بستر پر پڑی آنسو بہا رہی ہے وہ دیوار تک گئی بھی مگر پھر فتح دین کے ڈر سے پلٹ آئی۔ گھڑے میں سے پانی پیا اور دیر تک ایلومینیم کا کٹورا اپنے چہرے پر پھیرتی رہی۔ آج وہ کتنی تپ رہی تھی اور یہ پیالہ کتنا ٹھنڈا تھا۔ اب گرمیاں ختم سمجھو۔ اسے اپنے لحاف کا خیال آیا۔ جس کی روٹی لکڑی کی طرح سخت ہوگئی تھی۔ اب کے اسے دھنکواؤں گی۔ پر اللہ کرے دھنکوانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اللہ کرے اب کے لحاف کی بجائے میں کفن اوڑھوں ۔۔۔۔ !!!      وہ گھڑے کے پاس سے اٹھ کر چارپائی تک آگئی۔ کچھ دیر تک پاؤں لٹکائے بیٹھی رہی۔ پھر اسے ایک لمبی سانس سنائی دی۔ یہ راحتاں کی سانس ہوگی۔ہائے خدا کرے وہ سدا سُکھی رہے۔ اسی پیاری بچی اس نک چڑھی کے ہاں کیسے پیدا ہوگئی! اسے تو میرے ہاں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ اسے اپنا حسن دین یاد آگیا اور وہ رونے لگی۔ پھر آنسو پونچھ کر لیٹی تو آسمان سے ستارے جیسے نیچے لٹک آئے اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ہلنے لگے۔ فتح دین کا کتا غرا کر ایک بلی پر جھپٹا اور بلی دیوار پر سے پھاند کر اس کے سامنے سے گولی کی طرح نکل گئی۔کسی گھر میں مرغے نے بانگ دی اور پھر بانگوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔

 یکایک سب مرغے ایک دم یوں خاموش ہوگئے، جیسے ان کے گلی ایک ساتھ گھونٹ دئیے گئے ہیں۔ پورے گاؤں کے کتے بھونکنے لگے۔ پھر مشرق کی طرف سے ایسی آوازیں آئیں جیسے قریب قریب ہر رات آتی ہیں۔ بارڈر پر رینجرز سمگلروں کے تعاقب میں ہوں گے۔ پھر اس پر غنودگی سی چھانے لگی اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پھر ایک دم کھول دیں۔ بڑی آئی وہاں سے مجھے محتاج کہنے والی! چکی پیستے پیستے ہاتھوں کی جلد ہڈی بن گئی ہے اور مجھے محتاج کہتی ہے! قیامت کے دن شور مچا دوں گی کی اسے پکڑو اس نے مجھ پر بہتان باندھا ہے۔ مگر وہاں کہیں یہ میری راحتاں بیچ میں نہ بول پڑے۔

  اٹھ کر اس نے پانی پیا اور واپس جا کر چارپائی پر پڑگئی۔ پھر جب پو پھٹی تو اس کا حلق اس کے جوتے کے چمڑے کی طرح خشک ہو رہا تھا۔ وہ پھر پانی پینے کے لیے اٹھی لیکن دوسرے ہی قدم پر چکرا کر گِر پڑی۔ سر گھاٹ کے پائے سے ٹکرایا اور بے ہوش ہوگئی۔      جب مائی تاجو ہوش میں آئی تو اسے پہلا احساس یہ ہوا کہ نماز قضا ہوگئی ہے۔ پھر ایک دم وہ بڑبڑا کر اٹھی اور دیوار کی طرف بھاگی۔ ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں اور عورتیں چیخ رہی تھیں اور بچے بلبلا رہے تھے اور دھوپ میں جیسے سوراخ ہوگئے ہوں جن میں سے دھواں داخل ہورہا تھا۔ دور سے گڑگڑاہٹ اور دھماکوں کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں اور گلی میں سے لوگ بھاگتے ہوئے گزر رہے تھے۔

  “ راحتاں !۔۔۔ اے بیٹی راحتاں !!“۔ وہ پکاری۔

 راحتاں اندر کوٹھے سے نکلی۔ اس کا سنہرا رنگ مٹی ہورہا تھا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس کی آواز میں چیخیں اور آنسو اور کپکپی اور ناجانے کیا کچھ تھا۔ “ جلدی سے نکل آؤ مائی، گاؤں‌میں سے نکل جاؤ، لاہور کی طرف بھاگو۔ ہم بھی لاہور جا رہے ہیں۔ تم بھی لاہور چلو۔ ہندوستان کی فوج آگئی ہے“۔ یہ کہہ کر وہ پھر اندر بھاگ گئی۔

 ۔ “ ہندوستان کی فوج آگئی۔ یہاں ہمارے گاؤں میں کیوں آگئی؟ بارڈر تو تین میل ادھر ہے۔۔۔ !! “۔

  ۔ “ یہ فوج یہاں کیوں آئی ہے بیٹی؟“۔ مائی حیران ہو کر پکاری۔ “ کہیں غلطی سے تو نہیں آگئی! بھائی فتح دین کہاں ہیں؟ اسے بھیجونا وہ انہیں سمجھائے کے یہ پاکستان ہے“۔

   مگر راحتاں کا کوئی جواب نہ آیا۔ شور بڑھ رہا تھا۔ مشرق کی طرف کوئی گھر جلنے بھی لگا تھا۔ چند گولیاں اس کے کوٹھے کی دیوار کے اوپر والے حصے پر تڑاخ تڑاخ سے لگیں اور مٹی کی لپائی کے بڑے بڑے ٹکڑے زمین پر آرہے۔ چند گولیاں ہوا کو چیر دینے والی سیٹیاں بجاتی چھت پر سے گزر گئیں۔  فتح دین کے صحن کی ٹاہلی پر سے پاگلوں کی طرح اُڑتا ہوا ایک کوا اچانک ہوا میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا آیا اور مائی تاجو کے گھڑے کے پاس پتھر کی طرح گر پڑا۔

 پھر زور کا ایک دھماکا ہوا اور مائی جو دیوار سے ہٹ آئی تھی، پھر دیوار کی طرف بڑھی۔ ایک دم چودھری فتح دین کے دروازے کو کسی نے کوٹ ڈالا۔ پھر کواڑ دھڑام سے گرے۔ اکٹھی بہت سی گولیاں چلیں اکٹھی سب سے چیخیں بلند ہوئیں۔ ماں نے ان میں سے راحتاں کی چیخ کو صاف پہچان لیا۔ “ راحتاں بیٹی!“۔ وہ چلائی لاٹھی ٹیکتی ہوئی لپکی اور اپنے دروازے کی کنڈی کھول کر باہر گلی میں آگئی۔      گلی میں شہاب دین، نور اللہ، محمد بشیر، حیدر خان اور جانے کس کس کی لاشیں پڑی تھیں۔ چودھری فتح دین کے گرے ہوئے دروازے کے پاس مولوی عبدالمجید مردہ پڑے تھے۔ ان کا آدھا چہرا اُڑ گیا تھا۔ مائی نے مولوی صاحب کو ان کی نورانی داڑھی سے پہچانا۔      چودھری فتح دین کے صحن میں خود فتح دین اور اس کے بیٹے مرے پڑے تھے۔ فتح دین کی بیوی کی بالیوں بھر کان غائب تھے۔ اندر کوٹھیوں میں اٹھا پٹخ مچی ہوئی تھی اور باہر راحتاں بہت سے فوجیوں میں گری اپنی عمر سے چودہ پندرہ سال چھوٹے بچوں کی طرح چیخ رہی تھی۔ پھر ایک سپاہی نے اس کے گریباں میں ہاتھ ڈال کر جھٹکا دیا تو کُرتا پھٹ گیا اور وہ ننگی ہوگئی۔ فوراَ ہی ہو گھٹھری سی بن کر بیٹھ گئی۔ مگر پھر ایک سپاہی نے اس کے کرتے کا باقی حصہ بھی نوچ لیا اور قہقہے لگاتا ہوا اس سے اپنے جوتے پونچھنے لگا۔ پھر مائی تاجو آئی، راحتاں پر گر پڑی، اسے آسماں کی طرح ڈھانپ لیا اور ایک عجیب سی آواز میں، جو اس کی اپنی نہ تھی بولی۔ “ اللہ تیرا پردہ رکھے بیٹی، اللہ تیری حیا قائم رکھے“۔

  ایک سپاہی کے مائی کا سفید چونڈا پکڑ کر اسے راحتاں پر سے کھینچنا چاہا تو خون سے اس کا ہاتھ بھیگ گیا اور مائی وہیں راحتاں کو ڈھانپے ہوئے بولی۔ “ یہ لڑکی تم میں سے کسی کی بہن بیٹی ہوتی تو کیا تم جب بھی اس کے ساتھ یہی کرتے؟ یہ لڑکی تو ۔۔۔۔“۔

  کسی نے یہ کہہ کر مائی تاجو کی پسلیوں میں زور دار ٹھوکر مار دی کہ۔ “ ہٹو یہاں سے، ہمیں دیر ہو رہی ہے اور ابھی دوپہر تک ہمیں لاہور بھی پہنچنا ہے“۔۔۔۔ اور مائی یوں ایک طرف لڑک گئی جیسے چھیتھروں سے بنی ہوئی گُڑیا تھی۔ پھر سب کے ہاتھ راحتاں کی طرف بڑھے۔ جو اب چیخ نہیں رہی تھی۔ اب وہ ننگی کھڑی تھی اور یوں کھڑی تھی جیسے کپڑے پہنے کھڑی ہو۔ اس کا رنگ مائی تاجو کے کفن کے لٹھے سا ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں اتنی پھیل گئی تھیں معلوم ہوتا تھا جیسے ان میں پتلیاں کبھی تھیں ہی نہیں۔

  مائی تاجو ہوش میں آئی تو اس نے دیکھا اس کے پاس وارث علی مؤذن کھڑا ہے پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ لاشوں کے چہرے ڈھبنے ہوئے تھے۔ “ راحتاں کہاں ہے؟“۔ وہ یون چیخ کر بولی جیسے اس کے جسم کی دھجیاں اُڑ گئی ہیں۔ وارث علی سر جھکائے ایک طرف جانے لگا۔ “ میرے راحتاں بیٹی کہاں ہے؟“۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور وارث علی کی طرف یون قدم اٹھایا جیسے اسے قتل کرنے چلی ہے۔ “ کہاں ہے وہ؟“۔

 وارث علی کے پاس وہ جیسے سُن ہوکر رہ گئی۔ وارث علی کا چہرہ لہولہان ہو رہا تھا، اور اس کے ایک بازو پر سے اس کا گوشت ایک طرف کٹ کر لٹک رہا تھا۔ وہ بولا تو مائی تاجو نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ بھی کٹے ہوئے ہیں اور اس کے منہ میں بھی خون ہے۔    ۔ “ کسی کو کچھ پاتا نہیں مائی کے کون کہاں گیا۔ بس اب تو یہاں سے چلی جا۔ ہندوستانی فوج یہاں سے آگے نکل گئی ہے اور گاؤں کے گرد ان کے آدمی گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں۔ تم کماد کے کھیتوں میں چھپتی چھپاتی لاہور کی طرف پہنچ سکتی ہے تو چلی جا۔ وہاں مرے گی تو کوئی تیرا جنازہ تو پڑے گا۔ اب جا مجھے کام کرنے دے“۔

 ۔ “ دیکھ بیٹا“۔ مائی بولی۔ “ میں پانی لاتی ہوں تو ذرا کلی کر لے۔ تو موذن ہے اور منہ میں اتنا بہت سا خون لیے کھڑا ہے! خون تو حرام ہوتا ہے بیٹا“۔

۔ “ میں سب کر لوں گا“۔ وارث علی چلایا۔ مگر پھر ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے بولا۔ “ خدا کے لیے مائی، اب چلی جا یہاں سے۔ میں نے اتنے بہت سے لوگ مرتے دیکھے ہیں کی اب تو مرے گی تو میں سمجھوں گا کہ پوری دُنیا مر گئی۔ چلی جا خدا کے لیے“۔    ۔ “ پہلے بتا میری راحتاں بیٹی کدھر گئی؟“۔ مائی نے ضد کی۔

  وارث علی نے پوچھا۔ “ تجھے یاد ہے نہ اسے ننگا کر دیا گیا تھا؟“۔

  ۔ “ ہاں“۔ مائی نے سر ہلایا۔ اور اس کے ایک خون آلود لٹ رسی کی طرح اس کے منہ کر لٹک آئی۔

 ۔ “ تو پھر تو یہ کیوں پوچھتی ہے کہ وہ کدھر گئی“۔

 اور مائی نے اپنے منہ پر ایک زور کا دوہتڑا مرا جیسے چودھری فتح دین کا دروازہ ٹوٹا ہے۔ وہ دھب سے بیٹھ کر اونچی آواز میں رونے لگی۔

 وارث علی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ “ کسی نے سن لیا تو آجائے گا“۔ وہ بولا۔ پھر اسے بڑی مشکل سے کھینچ کر اٹھایا۔ “ تو میری حالت دیکھ رہی ہے مائی صرف اپنے خدا کی قدرت اور اپنے ایمان کی وجہ سے زندہ ہوں ورنہ میرے اندر کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ میں گلیوں میں سے لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر ایک گھڑے میں جما کر رہا ہوں۔ ابھی مجھے فتح دین اور لال دین اور نورالدین اور ماسی جنت کی لاشیں وہاں پہنچانی ہیں، پھر میں ان پر مٹی ڈال کر ان کا جنازہ پڑھوں گا۔ اور مر جاؤنگا۔ مائی بے جنازہ نہ مر۔ لاہور چلی جا۔ ہندوستانی فوج ادھر سے گئی ہے تو ادھر سے کھیتوں میں چھپتی چھپاتی نکل جا۔ میرے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔ دیکھ تو میرے تو جوتے بھی خون سے بھر گئے ہیں“۔

 ٹوٹے ہوئے دروازے پر سے گزرتے ہوئے وہ رُک گئی۔ “ وارث بیٹے “۔ وہ بولی۔ “ لاہور تو چلا جا۔ جنازہ میں پڑھ دوں گی میں بچ گئی تو یونہی کسی کو روز ایک روٹی حرام کرنی پڑے گی۔ تو مر گیا تو تیرے ساتھ تیری اذان بھی مر جائے گی۔“

 ۔ “ نہیں مائی“۔ وارث علی جلدی سے بولا۔ “ اذان بھی کبھی مری ہے خدا کے لیے تو اب چلی جا“۔

 گلی میں قدم رکھتے ہوئے اس نے پلٹ کر پوچھا۔ “ تیرا کیا خیال ہے بیٹا، راحتاں کو انہوں نے مار تو نہیں ڈالا ہوگا؟“۔      وارث علی نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی اور چودھری فتح دین کی لاش پر جھک گیا۔

 مائی تاجو گلی میں سے گزر رہی تھی اس نے ایک ہاتھ میں لاٹھی تھام رکھی تھی۔ دوسرا ہاتھ پیٹھ پر تھا، اور وہ یوں جھک جھک کر چل رہی تھی جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈنے نکلی ہے۔

   مائی تاجو گاؤں کی آخری گلی میں سے نکل کر  کھیت میں‌قدم رکھنے لگی تھی کہ جیسے پر طرف گولیاں چلنے لگیں اور وہ ایک کھالے میں لڑھک کر لیٹ گئی۔ ہائے کہیں وہ وارث علی کو نہ مار رہے ہوں ! مگر کیا ایک آدمی کو مارنے کے لیے اتنی بہت سی گولیوں کی ضرورت ہوتی ہے! کھالے میں سے اس نے کھیت کے کئی گنے گولیوں کی زد میں ٹوٹتے ہوئے دیکھے۔ اس نے یہاں تک دیکھا کی جہاں سے گنا ٹوٹتا ہے وہاں سے رس کی ایک دھار نکل کر جڑ کی طرف بہنے لگتی ہے۔۔۔ اور اسے راحتاں یاد آگئی اور وہ کھالے میں سے اٹھ کھڑی ہوئی، ایک گولا اس کے سر کے پاس سے گزر کر پیچھے ایک درخت کے تنے میں جا لگا، اور پورا درخت جیسے جھرجھری لے کر رہ گیا۔ وہ پھر کھالے میں لیٹ گئی اور اسے ایسا لگا کہ وہ مرگئی ہے اور قبر میں پڑی ہے۔ تب اسے اپنا کفن یاد آیا۔ اور وہ اتنی تیزی سے کھالے میں سے نکل کر گلی میں داخل ہوئی جیسے اس کے اندر ایک مشین چلنے لگی ہے۔ اسے پہلی بار یاد آیا کی وہ تو خالی ہاتھ لاہور جا رہی تھی۔ وہ تو اپنی کمائی گھر پر ہی بھول آئی تھی۔ اس کا کفن تو وہیں بکسے میں رکھا رہ گیا تھا۔ زندگی میں‌اتنی محبت بھی کیا کہ انسان اسے بچانے کے لیے بھاگے تو اپنا کفن ہی بھول جائے۔ اور یہ کفن اس نے اتنی مشقت سے تیار کیا تھا۔ اور اس پر کتنے چاؤ سے کلمہِ شہادت لکھوایا تھا خاکِ پاک سے اچھے کفن اور اچھے جنازے ہی کے لیے تو وہ اب تک زندہ تھی۔

   اب وہ اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ جوانی میں بھی یوں نہیں چلی ہوگی۔ اس کے قد کا خم بھی ایک دم ٹھیک ہوگیا تھا اور لاٹھی کو ٹیکنے کی بجائے اسے تلوار کی طرح اٹھا رکھا تھا۔راحتاں کے گھر کے سامنے سے بھی وہ آگے نکلی چلی گئی۔ مگر پھر جیسے اس کے قدم جکڑے گئے۔پلٹی۔ ٹوٹے ہوئےدروازے میں سے جھانکا۔ وارث علی سب لاشیں سمیٹ لے گیا تھا۔ صرف راحتاں کے کُرتے کی ایک دھجی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پورے صحن میں یہاں سے وہاں ایک بےچین روح کی طرح بھٹکتی پھرتی تھی۔

 مائی تاجو کا جی چاہا کہ دوہتڑ مار کر اپنا سینے ادھیڑ دے۔ مگر ساتھ ہی اسے وارث علی یاد آیا۔ جس نے کہا تھا ۔۔۔ فوراً اسے اپنا کفن یاد آیا۔اس کے کوٹھے کا دروازہ کھلا تھا۔ گھڑے کے پاس کوا اسی طرح پڑا تھا۔ اس کا کھٹولا اسی طرح بچھا تھا۔ اندر اس کا بکس کھلا پڑا تھا مگر اس میں کفن موجود تھا، کیسی منہ کی کھائی ہوگی انہوں نے جب بکسا کھولا ہوگا اور اس میں سے صرف کفن نکلا ہوگا۔

مائی کفن کو سر کی چادر میں چھپا کر باہر آئی تو فتح دین کا کتا بھاگتا ہوا آیا۔ اور اس کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہنس نہیں سکتا ورنہ خوب خوب ہنستا۔

 ۔ “ چل ہٹ“۔ مائی نے اسے ڈانٹا۔ “ میرے نمازی کپڑے پلید نہ کر“۔      کتا اٹھ کھڑا ہوا۔

  مائی نے دوسری گلی میں پڑتے ہوئی پلٹ کر دیکھا تو کتا وہیں کھڑا تھا۔اور اسی طرح کھڑا تھا جیسے لکڑی کا بن کر رہ گیا۔ “پچ پچ“۔ مائی نے کتے کو اپنی طرف بلانا چاہا۔ مگر وہ پلٹا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک دیوار کے سائے میں ایک دم یوں بیٹھ گیا جیسے گِر پڑا ہے۔ “ ہائے بیچارہ“۔ مائی کا احساسِ جرم پکارا۔

 مگر پھر فضا میں اوپر ایک دو دھماکے ہوئے کہ مائی تاجو کو زمین اپنے قدموں تلے ٹکڑے ٹکڑے ہوتی محسوس ہوئی۔ تیزی سے چلتی وہ پھر کھالے میں جاگِری۔ اب زمین ہِل رہی تھی۔ فضا میں جیسے بہت سارے شیر دھاڑے جا رہے تھے اور دھماکوں اور گولیوں اور گڑگڑاہٹوں کا شور قریب آتا جا رہا تھا۔ اب وہ کفن کو اپنے سینے سے چمٹائے کھالے میں رینگنے لگی۔ پرسوں پہلے وہ چراغوں کا میلہ دیکھنے کے لیے وہ گاؤں کی دوسری عورتوں کے ساتھ اسی کھالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی لاہور چھاؤنی میں‌جا نکلی تھی۔ اور وہاں کیسا غضب ہوا تھا۔ بےچاری شہابی ایک ٹانگے کے پہیہ تلے آکر وہیں شالامار کے دروازے پر ہی مر گئی تھی۔۔۔ تو کیا راحتاں مر گئی ہوگی۔ کیا راحتاں مرنے کے لائق تھی؟ لا بیٹی۔ میں تیرے ہاتھ کی روٹی واپس نہیں کروں گی۔ روٹھ مت مجھ سے راحتاں۔۔ اے راحتاں بیٹی!!!      اس نے سنا کی وہ اونچی اونچی بول رہی ہے۔۔۔ مگر اتنے شور میں اس کی آواز کون سنے گا۔۔۔ راحتاں۔۔۔اے میری اچھی، میری نیک، میری خوبصورت راحتاں!

 ہائے یہ کپاس بھی عجیب پودا ہے۔ اس کے پھول کا رنگ کیسا الگ ہوتا ہے دوسرے پھولوں سے۔۔۔ اے راحتاں بیٹی!      کھالے سے کپاس کے کھیت میں اور وہاں سے وہ گنے کے کھیت میں گھس گئی۔ دھماکے اتنے تیز ہو رہے تھے جیسے اس کے اندر ہورہے ہیں کہتے ہیں کے گولا لگے تو انسان گولے کی طرح پھٹ جاتا ہے۔ کون چُنتا پھرے کا میری ہڈیاں اور پھر میرا کفن جس پر خاکِ پاک سے کلمہِ شہادت لکھا ہے۔

  کتنا گھنا ہے گنے کا یہ کھیت! یہ چودھری فتح دین کا کھیت ہے۔ راحتاں اسی کھیت کے گنے چوس چوس کر کہتی تھی مائی مجھے بڑھاپے سے صرف اس لیے ڈر لگتا ہے کہ منہ پوپلا ہوجاتا ہے اور گنا نہیں چوسا جا سکتا۔      مائی تاجو مسکرائی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ راحتاں بیٹی ۔۔۔۔ اے میری راحتاں بیٹی ۔۔۔!

  ۔ “ مائی “۔ آواز جیسے پاتال سے آئی تھی۔      انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ چاہے زمین اور آسمان بج رہے ہوں مگر اس کے کان بجنے سے باز نہیں آتے۔    ۔ “ مائی “۔      ہائے یہ آواز تو جیسے میری پسلی سے آئی ہے۔

 وہ کفن کو سینے سے چمٹا کر دھک گئی۔ اس کی انگلیوں نے محسوس کیا کہ اس کا دل اس کے سینے سے نکل کر کفن میں آگیا ہے اور یوں دھڑک رہا ہے جیسے توپیں چل رہی ہیں۔

 ۔ “ مائی “۔ اس کے سر پر کوئی بولا۔

   پھر وہ دیکھتی رہ گئی۔ کفن اس کی گرفت سے نکل کر گِر گیا اور وہ دیکھتی چلی گئی۔

  ۔ “ مائی“۔ راحتاں کہہ رہی تھی۔ “ تم تو میری طرف بس دیکھتی ہی جا رہی ہو۔ دیکھتی نہیں ہو میں ننگی ہوں مجھے کچھ دو“۔

  مائی نے زور زور سے ہنستے ہوئے اور زور زور سے روتے ہوئی راحتاں کو یوں گود میں کھینچ لیا۔ جیسے ننھے سے حسن دین کو دودھ پلانے چلی ہے۔

 اب دھماکے جیسے کھیتوں کی چاروں منڈیروں پر ہورہے تھے۔ مگر مائی اس سے بےنیاز راحتاں کا ماتھا چومے جا رہی تھی۔ “ ہائے تو زندہ ہے میری بیٹی۔ جبھی میں کہوں کہ میں مرتی کیوں نہیں ہوں۔ ہائے اب تو کبھی نہ مروں۔ ہائے مجھے یہ اپنا کفن کیسا فالتو فالتو سا لگنے لگا ہے“۔

 ۔ “ کفن؟“۔ راحتاں تڑپ کر مائی کی گود سے نکلی۔ کفن اٹھا کر اسے جلدی سے کھولا، اور اپنے پورے جسم پر لپیٹ کر یوں مسکرائی جیسے وہ دیوار پر سے مائی کو روٹی تھمانے آئی ہے۔

 اور مائی نے دیکھا کہ راحتاں اس کے کفن میں بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔

  ۔ “ ہائے میری بیٹی، اللہ تیرا پردہ رکھے۔ اللہ تیری حیا قائم رکھے میری بیٹی“۔

  پھر راحتاں نے مائی کو بتایا کہ جب وہ اسے لے جارہے تھے تو اوپر سے پاکستان کے ہوائی جہاز آئے اور وہ لوگ ادھر اُدھر کھالوں اور گڑھوں میں جا دبکے ۔۔۔۔۔، “ اور میں بھاگ آئی۔ مجھے پتا تھا کہ میرے وطن کے جہاز مجھے پہچانتے ہیں، اور وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ تم میں گاؤں پار کر کے یہاں آگئی اور جب سے یہیں بیٹھی ہوں اور جب سے میں یہاں اکر بیٹھی ہوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میری مائی مجھے پکار رہی ہے ۔۔۔۔۔“۔

  ۔ “ راحتاں ۔۔۔ اے راحتاں بیٹی!“۔      کفن پر جگہ جگہ دھبے نمایاں ہونے لگے تھے۔ نوچی کھسوٹی ہوئی راحتاں کا جسم اپنا کرب کفن کو منتقل کر رہا تھا، اور خاکِ پاک نے اس خون کے لیے جگہ خالی کر دی تھی۔

   اور لاہور کے کہیں آس پاس مائی نے کہا۔ “ راحتاں بیٹی تو کتنی سچی ہے۔ تو نے میرا شاندار جنازہ نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔ تو نے یہ وعدہ سچ مچ پورا کیا۔ تو میرے کفن میں کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ میری اچھی۔ میری نیک، میری خوبصورت راحتاں“۔


Thursday, March 22, 2012

بچپن کی کچھ یادیں ۔۔۔

بچپن میں اُلٹے کام کرنے پر والدہ سے مار پڑی، والد نے کبھی ہاتھ نہیں لگایا (چھوڑوایا بھی نہیں، شاید اس لیے کہ مار کا اثر نہ ہوتا)۔ پر بچے شرارت نہ کریں تو اور کیا کریں۔ ہم شرارت کرتے رہے اور مار کھاتے رہے۔

والدہ بازار شاپنگ کرنے گئی تھیں اور ہم تین (میں، چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی جو اُس وقت نو،چھ اور پانچ سال کے ہونگے)۔ کمرے میں قالین بچھا تھا اور ہم تینوں کھیل رہے تھے۔ اچانک پِلو فائٹنگ شروع ہوگئی۔ ایک دوسرے کو تکیے سے مارتے ، بھاگتے اور ہنستے۔ تکیے کی ایک سائیڈ سے سلائی کھلنا شروع ہوئی اور اس میں سے فوم کا ٹکڑا باہر نظر آنا شروع ہوگیا۔ میں نے اُسے اندر کرنا چاہا۔ اندر کرنے کے دوران سلائی اور کُھل گئی اور فوم زیادہ باہر آگیا۔ میں نے بجائے اسے اندر کرنے کے اُس کے چھوٹے چھوٹے پیس کرکے اُن دونوں پہ پھینکنا شروع کئے تو انھوں نے دیکھا دیکھی اُسی تکیے سے یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے کمرے میں فوم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پھیل گئے۔ :)

ہماری ایک عادت تھی کہ غلط کام کرنے کے بعد سو جایا کرتے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ کس نے کیا ہے :)۔ خیر امی واپس آئیں۔ کمرہ دیکھا اور پھر ہمیں وہاں سویا ہوا پایا۔ ہم تینوں کو اُٹھایا اور پوچھا یہ کس نے کیا ہے؟؟ ہم سے چُپ ۔۔ پھر چھوٹا بولا ” یہ بھائی نے کیا ہے” ۔۔ چھوٹے کے بولنے کی دیر تھی کہ بہن بولی ” جی امی یہ بھائی نے کیا ہے ” ۔۔ظاہر ہے کہ اب پیچھے میں ہی رہ گیا تھا تو ماننا پڑا کہ شروع میں نے کیا اور بعد میں یہ دونوں بھی شامل ہوئے۔ خیر کہاں سُنی جانی تھی۔ ایک ڈنڈا ہوا کرتا تھا امی کے پاس ۔۔۔ واہ ۔۔ کیا پٹائی ہوئی اُس سے اور اُس پہ ظلم یہ کہ قالین سے ٹکڑے نکالنا بہت مشکل تھا تو ہاتھوں سے ہم تینوں کو نکالنے کو کہا گیا ۔۔۔ ایک ڈنڈا پڑتا اور صفائی ہوتی ۔۔کتنے دن تک ہم تھوڑا تھوڑا کرکے قالین صاف کرتے اور جب تک صاف نا ہوا امی سے ڈانٹ پڑتی رہی۔

اِسی طرح ایک بار امی انڈوں کی ٹرے لے کر آئیں فریج میں رکھی اور خود سامنے والی آنٹی کے گھر چلی گئیں۔ ابوجی شام میں آیا کرتے تھے اور ہم تینوں گھر پہ موجود تھے۔ انہی دنوں ہمارے واشروم کا فلش سسٹم بھی خراب ہوا تھا اور پلمبر نے اُسے اتار کر واشروم سے باہر رکھا ہوا تھا۔ چھوٹی باہر گئی فریج کھولی انڈے دیکھے تو شرارت سوجھی کہ ہنڈیا بناتے ہیں۔ فلیش ٹینکی میں پانی بھرا اور ایک ایک کرکے تینوں نے انڈے اس ٹینکی میں ڈالنا شروع کئے۔(توڑ کر چھلکوں سمیت)۔۔۔۔ ٹرے کو ہم نے باہر ڈرم میں پھینکا اور ڈنڈے کو چمچ بنا کر ٹینکی میں پھیرتے رہے۔ حسبِ معمول یہ واردات کرنے کے بعد ہم تینوں سو گئے۔

امی آئیں اور انھوں نے ہمیں سویا ہوا پایا۔ ابھی رات کے لیے کھانا تیار نہیں تھا اور امی ، ابو کے آنے سے پہلے شام میں کھانا تیار کرتی تھیں۔ اُس دن ابو جلدی آگئے۔ خیر امی نے انڈے کوفتے بنانے کا پروگرام بنایا اور جب انڈوں کے لیے فریج کھولی تو انڈے غائب۔ سب جگہ تلاش کرنے کے باوجود نہ ملے تو ہمیں اُٹھا کہ انڈے کہاں ہیں اور ہم نے ہمیشہ کی طرح یہی کہا کہ معلوم نہیں۔ ہم تو سو رہے تھے۔ دل میں ڈر بھی تھا کہ اگر امی کو پتہ چل گیا تو خیر نہیں۔ ابو بازار سے کھانا لائے ، انڈوں کا معمہ حل نا ہوا۔ رات جب ابو واشروم جانے لگے تو ٹینکی کے پاس سے گزرتے وقت انہیں عجیب سی بُو آئی تو انھوں نے ٹینکی کا ڈھکن اُٹھا کر دیکھا تو پانی میں جھاگ ہی جھاگ اور انڈوں کے چھلکے تیر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے اور ادھر ابو نے امی کو بتایا کہ انڈے یہاں ہیں۔ پھر کیا تھا سونے سے پہلے وہ دھلائی ہوئی کہ آج تک یاد ہے۔ :)

Wednesday, March 21, 2012

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں

تب کہی جا کر رضا تھوڑا سکون پاتی ہے ماں

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں

نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے

چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں

ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو

کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں

جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا

بچہ تو چھاتی پے ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول

آنسوں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں

فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح

جیسے سوکھی لکڑیاں ، اس طرح جل جاتی ہے ماں

اپنے آنچل سے گلابی آنسوں کو پونچھ کر

دیر تک غربت پے اپنی اشک برساتی ہے ماں

سامنے بچوں کے خوش رہتی ہے ہر ایک حال میں

رات کیوں چھپ چھپ کے لیکن اشک برساتی ہے ماں

کب ضرورت ہو میری بچے کو ، اتنا سوچ کر

جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے

اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں

دے کے اک بیمار بچے کو دعائیں اور دوا

پینتی پے رکھ کے سر قدموں پے سو جاتی ہے ماں

گر جوان بیٹی ہو گھر میں کوئی رشتہ نا ہو

اک نئے احساس کی سولی پے چڑھ جاتی ہے ماں

ہر عبادت ہر محبت میں نیہا ہے اک غرض

بے غرض بے لوث ہر خدمات کو کر جاتی ہے ماں

زندگی بھر چنتی ہے خار ، راہ ذیست سے

جاتے جاتے نعمت فردوس دے جاتی ہے ماں

بازوں میں کھینچ کے آجائے گی جیسے کائنات

ایسے بچے کے لیے بانہوں کو پھیلاتی ہے ماں

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں

جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں

پیار کہتے ہے کسے اور مامتا کیا چیز ہے

کوئی ان بچو سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

صفحہ ہستی پے لکھتی ہے اصول زندگی

اس لیے اک مکتب اسلام کہلاتی ہے ماں

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے

عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں

گھر سے جب پردیس جاتا ہے کوئی نور نظر

ہاتھ میں قرآن لے کر در پے آجاتی ہے ماں

دے کے بچے کو ضمانت میں اللہ پاک کی

پیچھے پیچھے سر جھکائے در تک جاتی ہے ماں

کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع

سامنے جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں

جب پریشانی میں گھر جاتے ہیں ہم پردیس میں

آنسوں کو پونچھنے خوابوں میں آجاتی ہے ماں

دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں

ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں

مرتے دم بچہ نا آ پائے اگر پردیس سے

اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں

باب مر جانے پے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے

بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آجاتی ہے ماں

ہم بلاؤں میں کہیں گھرتے ہیں تو بے اختیار

خیر ہو بچے کی ، کہ کر در پے آجاتی ہے ماں

چاہے ہم خوشیوں میں ماں کو بھول جائیں دوستو !

جب مصیبت سر پے آتی ہے تو یاد آتی ہے ماں

دور ہو جاتی ہے ساری عمر کی اس دم تھکن

بیاہ کر بیٹے کو جب گھر میں بہو لاتی ہے ماں

چین لیتی ہے وہی اکثر سکون زندگی

پیار سے دلہن بناکر جس کو گھر لاتی ہے ماں

پھر لیتے ہیں نار جس وقت بیٹے اور بہو

اجنبی اپنے ہی گھر میں ہے بن جاتی ہے ماں

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد

جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں

ضبط تو دیکھوں کہ اتنی بے رخی کے باوجود

بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نا پچھتاتی ہے ماں

Tuesday, March 20, 2012

کھودا پہاڑ اور نکلے چوہے ۔۔۔

بحرین دوبارہ آئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ دوبارہ اس لیے کہ پہلے والد یہاں نوکری کرتے تھے اور بچپن ہمارا یہیں گزرا ہے۔ سن 95ء میں ہماری واپسی ہوئی اور والد اپنی سروس ختم کرکے 03ء میں واپس گئے۔

اب میرا سولہ سال بعد یہاں آنا ہوا ہے۔ اچھا بھی لگتا اور دوسری طرف دُکھ بھی ہوتا ہے۔ آج کا بحرین اور سولہ سال پہلے کے بحرین میں بہت فرق آگیا ہے۔ اچھا اِس لیے کہ بحرین والوں نے بڑی ترقی کر لی ہے، کُھلی کھلی سڑکیں، اونچی عمارتیں، صاف صفائی اور ایسے ہی دیگر معاملات۔۔ اور دُکھ اِس لیے کہ یہاں کی عوام اپنے حکمران سے خوش نہیں اور وہ آئے دن کچھ نا کچھ کرتی رہتی ہے جس سے یہاں رہنے والوں کو تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے۔

آپ میں سے اکثر جو گلف میں رہتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ بحرین کی آبادی بارہ لاکھ سے کچھ اوپر ہے اور اس کا رقبہ 700 مربع کلومیڑ ہے۔ آبادی میں ساڑے پانچ لاکھ بحرین اور چھ لاکھ غیر ملکی ہیں۔ بحرین کی 71 فیصد آبادی مسلم اور باقی 21 فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اُس مسلم آبادی کا  70 فیصد شیعہ مسلم اور 30 فیصد سُنی مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ بادشاہ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ ، ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد آل خلیفہ اور وزیراعظم خلیفہ بن سلمان آل خلیفہ ہیں۔ خلیفہ فیملی 1797ء سے یہاں حکومت کر رہی ہے اور یہ سُنی حکمران ہیں۔ اِس سے پہلے یہاں ایرانی حکمرانوں کی حکومت رہی اور وہ سب شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔

آل خلیفہ فیملی دراصل کویت سے آئی تھی۔ 1802ء میں یہاں عمانی حکمران سے قبضہ کیا اور اپنے بارہ سالہ بیٹے کو بحرین کا امیر مقرر کیا۔1820ء میں آل خلیفہ قبیلے نے بحرین پر دوبارہ قبضہ کیا اور برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو اُس وقت خلیج فارس میں غالب فوجی طاقت تھی۔1932ء میں یہاں تیل دریافت ہوا اور 1935ء میں برطانیہ کی رائل نیوی نے اپنا بحری اڈا ایران سے بحرین منتقل کیا۔ اور اِن دونوں میں تعلقات اور بہتر اور گہرے ہونے لگے۔

1957ء میں ایرانی پارلیمنٹ نے ایک بِل پاس کیا جس میں بحرین کو ایران کا چودواں صوبہ قرار دیا گیا، ایران کوشش کرتا رہا کہ یہاں ریفرنڈم کروایا جائے۔ ایران اور برطانیہ کی درخواست پر اقوام متحدہ نے بحرین میں ایک سروے کروایا  جس میں علاقے کے سیاسی مستقبل کا تعین کریا جانا تھا۔ لوگوں کی ایک بھاری اکثریت نے ایک مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ریاست کی حمایت کی۔

90 کی دہائی میں یہاں شیعہ سنی فساد شروع ہوئے اور ہماری واپس جانے کی وجہ بھی یہی بنی۔ سن 95ء میں یہ فساد عروج پر پہنچے جسے بعد میں قابو پالیا گیا۔ پاکستانی آبادی یہاں اسی نوے ہزار کے قریب ہے اور اِن کے علادہ انڈین آبادی دو لاکھ، بنگلہ دیشی ڈیڑھ لاکھ، فلپائنی تیس ہزار کے لگ بھگ ہیں۔

پاکستانی آبادی کا زیادہ حصہ بحرین پولیس میں شامل ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ یہاں کی شیعہ عوام پاکستانیوں کا پسند نہیں کرتی۔ یہ ان فساد کرنے والوں کو پکڑتے ہیں اور ان پر مقدمہ چلتا ہے اور پھر اُن کے گھر والے پاکستانیوں پر لعن تعن کرتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں۔ پاکستانیوں کو بادشاہ کی کافی سپورٹ رہی ہے بلکہ بادشاہ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ کے والد شیخ عیسٰی بن سلمان آل خلیفہ پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ خیر یہ تو گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔

فروری 2011ء کی بغاوت جو اُٹھی تو اُس نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا پر سعودی اور اماراتی افواج نے یہاں مداخلت کرکے اُس بغاوت کو ختم کیا۔

پہلے یہاں عرب پاکستانی آبادی کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ پر اب ایک آنکھ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ پاکستانیوں سے ڈرتے بھی تھے کہ یہ سخت جان قوم ہے اور ان کی آپس میں کم ہی لڑائی ہوا کرتی تھی۔ پر فروری 2011ء کے بعد سے سب بدل گیا ہے۔ تب سے اب تک بہت سے پاکستانیوں پر حملہ کیا گیا ہے کئی تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو اتنا مارا گیا ہے کہ وہ مستقل بستر سے جا لگے ہیں۔ بحرینی پولیس میں پاکستانیوں کو اب بھی شامل کیا جاتا ہے بلکہ ان کی تعداد پہلے سے زیادہ کر دی گئی ہے۔ نا اُن کو کوئی اسلحہ دیا گیا ہے اور نا ہی اُن کو مارنے کی اجازت ہے۔ میں تو اُنھیں مسکین پولیس کہتا ہوں کہ بےچارے ایک ڈنڈہ اور ایک شلیڈ کے ساتھ ان عربوں سے مقابلہ کرنے جاتے ہیں اور کبھی یہ دوڑ کر واپس آتے ہیں تو کبھی عربوں کو بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پچھلے ایک سال سے روزانہ بلاناغہ کھیلا جا رہا ہے۔ پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ اور انھیں بحرینی نیشنیلٹی کا لالچ دیا جاتا ہے اور یہ بےچارے اس لالچ میں آجاتے ہیں۔

ایک پاکستانی سے میری بات ہوئی تو کہتا ہے اس میں سب سے بڑا قصور ہماری پاکستانی حکومت کا ہے۔ میں نے کہا وہ کیوں ؟؟ تو بولا یہ عربی ہم سے ڈرتے تھے، ہم سے لڑائی نہیں کرتے تھے اسی ڈر سے کہ یہ ماریں گے، پر اب یہ پاکستان کی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں اور وہاں کے سیاسی حالات، آئے دن کے خودکش حملے، لوٹ مار، چوری، کرپشن ، روز روز کی بدلتی حکومت وغیرہ وغیرہ تو اِن کے دل سے وہ خوف ختم ہونا شروع ہوگیا کہ ہم تو اس قوم کو بہت بڑی توپ سمجھتے تھے اور یہ تو چوہے نکلے، ان کے اپنے گھر میں سکون نہیں تو یہاں ہمارا سکون کیوں برباد کر رہے ہیں۔ اور یہ خوف اب ختم ہوگیا ہے۔

آپ یہاں اکیلے شلوار قمیض پہن کر باہر نہیں جا سکتے ڈر ہوتا ہے کہ آپ کی پہچان ہوجائے گی اور کسی دن محلے کے آوارہ لڑکے آپ کو پکڑ کے ماریں گے۔ بہت سی پاکستانی فیملیز جو  یہاں 20 یا 30 سال سے مقیم تھیں چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور اِن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جو پاکستانی ان کے علاقوں میں رہتے تھے وہ سب چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں۔

فروری 2012ء میں حکومت کو بغاوت کا پھر خدشہ تھا تو اس بار پہلے سے سب تیاری کر رکھی تھی اور حکومت اس میں کامیاب بھی ہوئی، کوئی خون خرابہ نہیں ہوا اور سب ٹھیک ہی رہا۔ پر اب بھی ان کے چند مخصوص علاقے ہیں جہاں چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پہلے صرف پاکستانیوں کو نشانہ بناتے تھے، اب کوئی بھی ایشیائی ہتھے چڑھ جائے تو ”پینجا” لگا دیتے ہیں۔ بظاہر سب اچھا لگتا ہے، اور ایسا ہی ہے۔ سب اچھا ہے۔ میں جہاں رہ رہا ہوں وہاں ایسا کچھ نہیں کوئی لڑائی نہیں کوئی جلوس نہیں امن اور شانتی ہے۔ حکومت کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ اور ایشیائی آبادی بھی اس وجہ سے خوش ہے کہ شہروں میں سکون ہے۔ اب اپریل میں فارمولہ ون ریس ہونی ہے اور سب انٹرنیشل میڈیا یہاں آئے گا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ یہ بغاوت اس وقت پھر سر اٹھائے گی۔

میرے مطابق یہاں کے لوگ غلط سوچ رہے ہیں، جیسا یہ ملک چلنا چایئے ویسا ہی چل رہا ہے۔ کرپشن نہیں لوٹ مار نہیں سب کام وقت پہ بلکہ وقت سے پہلے۔ خلیفہ آئے دن چھوٹی موٹی تقریبات کا انعقاد کرتا رہتا ہے، جس سے یہاں کے رہنے والوں کا دل لگا رہے، گھر خود حکومت بنا کر دیتی ہے، جو کام نہیں کرتا اس کے لیے وضیفہ ہے سرکاری نوکریاں ہیں، سُنی آبادی خوش ہے پر شیعہ آبادی جمہوریت مانگتی ہے۔ انھوں نے شاید پاکستان کی جمہوریت نہیں دیکھی :)۔ دیکھ لیں تو اچھا ہے۔

Sunday, March 18, 2012

بندے کے پُتر بنو ۔۔۔

میں آج کل جس بندے کے ساتھ فلیٹ شئیر کر رہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ وہ یہ پڑھے اور پھر ہماری لڑائی ہو ، یاں وہ میرا سر پھاڑے یا میں اُس کا۔ فیصلہ ہو ہی جائے۔ اور اگر نہیں تو ”بندے کے پُتروں” کی طرح رہے۔

شئیرنگ روم ہو یا فلیٹ، اِس کے مسائل کیا ہوتے ہیں یہ یہاں آ کر معلوم ہو رہا ہے۔ اور وہ بھی تب جب آپ نہ فلیٹ چھوڑ سکتے ہو اور نہ روم کیونکہ کمپنی رہائش ایک بار ہی دیتی ہے۔ آپ کمپلین تو کر سکتے ہیں پر اُس پر سوائے بہانوں کے کچھ نہیں ملتا۔ آپ جتنی مرضی کوشش کر لو کہ کوئی بات نہ ہو پھر بھی ٹاکرا تو ہو کر ہی رہتا ہے۔

آپ میں سے بہت سے افراد بیرونِ ملک رہ رہے ہیں اور اکثریت اُن کی روم یا فلیٹ شئیر کرتی ہے۔ یہاں تو یہ حال بھی دیکھا ہے کہ ایک روم میں آٹھ آٹھ اور ” بنگالی گلی” میں تو روم میں دس دس افراد رہ رہے ہیں۔ میں تو پھر ایک فلیٹ شئیر کر رہا ہوں اور فلیٹ میں ہم دو لوگ ہی رہتے ہیں۔ میرا حال ایسا ہے تو اُن بےچاروں کا تو اللہ ہی حافظ۔

میرا فلیٹ پارٹنر میرا سینئر بھی ہے، عُمر میں بھی تو عہدے میں بھی۔ چلو سینئر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ کل کو ہم نے بھی ہونا ہے تو اس میں کیا ہے۔ موصوف پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہیں یاں اُن کی اماں کیا کھلایا کرتی تھیں جو ایسا سپوت پیدا کیا۔ یاں پھر یہ میرے کوئی گناہ ہیں جن کی سزا مجھے مل رہی ہے۔بہت بار باتوں باتوں میں سمجھایا ( حالانکہ وہ بڑا ہے اور سمجھانا اُسے مجھے چایئے)، پر کوئی فائدہ نہیں۔ وہی کتے کی دُم اور ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔

شروع شروع میں تو اچھے سے رہا کام وام بھی کر لیا کرتا تھا، پر اتنا ہڈحرام نکلے گا یہ اُمید نہیں تھی۔ ہمارے بڑے کہتے ہیں ” بڑوں کی عزت کرو تو چھوٹے بھی دیکھا دیکھی سیکھ جاتے ہیں عزت کرنا” اور بڑوں کو کہا کرتے تھے ”اپنی عزت خوش کرواو اچھے کام کرکے تاکہ چھوٹے تمھاری عزت کریں”۔ پر اِس بندے کو شاید یہ بات نہ تو کسی نے بتائی ہے اور اگر بتائی بھی ہوگی تو اُس نے ایک کان سے سُنی ہوگی اور ۔۔۔

آفس سے ہمیشہ لیٹ، پہلے تو مجھے کہا کرتا تھا یار دیر سے جایا کرو کون سا آگ بجانا ہوتی ہے ہم نے۔ دفتر سے آرڈر ہوئے کہ جلدی آیا کریں ، میں نے جلدی جانا شروع کیا تو موصوف کو اخلاقا اُٹھا بھی دیا کرتا تھا کہ ” ٹائم ہوگیا ہے، اُٹھ جائیں”۔ ایک بار، دو بار، تین بار، چار بار جتنی بار بھی آواز دی یہی جواب آیا ” اُٹھتا ہوں”۔ میں دفتر آیا، یہ اُسی روٹین پر۔ میں نے اُٹھانا چھوڑا تو وہ گلہ کہ اب اُٹھاتے نہیں ہو۔ باہر جانا ہے تو ”چلو یار باہر چلیں” اور جس کام سے چلیں گے وہ آپ ”مالٹا بےچارہ” میں پڑھ چلے ہونگے۔(اور اگر نہیں پڑھا تو کوئی بات نہیں، یہ پوسٹ بھی نہ پڑھیں)۔

ابھی جمعرات کی ہی بات لے لیں۔ بینک سے میں نے پیسے نکلوانے تھے، تبھی موصوف کو یاد آیا کہ اُس نے پیسے جمعہ کروانے ہیں۔ ساتھ چلتے ہیں۔میں نے دل میں سوچا یااللہ خیر۔پیسے جمع اور نکلوانے میں کتنی دیر لگتی ہوگی ؟؟ دس منٹ، پندہ ؟؟ اگر آپ کا یہ جواب ہے تو آپ غلط ہیں۔

آدھ گھنٹہ۔ اور وہ بھی جب باہر نکلے اور پانچ منٹ واک کرکے آگے آ چکے تو دوسرا کام یاد آیا ۔

 ” او یار گھر پیسے بھیجنے ہیں”۔

 تو بھیج بھائی، میری ہاتھ بھجوانے ہیں کیا ؟؟

تم ایسا کرو تمھارے پاس پیسے ہیں نا ابھی تم وہ مجھے دے دو اور تھوڑے اور نکلوا لو میں نے تو اب جمع کروا دیئے ہیں (اس لیے جمع کروانے کہ بینک سٹیٹمنٹ اچھی بن جائے) تو کل لے لینا مجھ سے۔ ایک بار میں نے سوچا۔ پھر اچانک اُسے خیال آیا۔” نہیں یار رہنے دو، شام میں آکر نکلوا لیں گے”۔ (اچھااااااااااااااااااااااا) پھر دوسرے ہی لمحے نہیں یار ابھی بھجوا دیتے ہیں شام میں کہاں آنا ہوگا۔

پیسے نکلوانے یو بی ایل گئے تو خالم خالی۔ بس عملہ بیٹھا تھا، حیرت ہوئی کہ یہاں تو بڑا پُرسکون ماحول ہے۔ خیر عملہ پاکستانی تھا تو آپ کو جلدی فارغ تھوڑی نا کرنا تھا اُنھوں نے۔ آدھ گھنٹہ انھوں نے بھی لگا دیا۔ اب نئی بات شروع ” یار انہوں نے ریٹ کم لگایا ہے، واپسی پر ایچ بی ایل سے ریٹ پوچھ کر جاتے ہیں ”۔میں نے کہا ” یو گو، آئی وونٹ کم”۔ تو منہ بنا لیا اور یہ جا وہ جا۔ میں نے شکر کیا کہ جان چھوٹی۔

اُس بندے نے سارا دن فلیٹ پہنچ کر میری کسی بات کا جواب نا دیا اور مُنہ بنا کر کمرے میں بیٹھا رہا۔ او بھائی؟؟؟ مجھے سمجھ کیا رکھا ہے ؟؟ نوکر ؟؟ مجال ہے تو اُس نے کبھی فلیٹ کی صفائی کی ہو، فلیٹ کی چھوڑیں اپنے کمرے کی صفائی وہ تو کرنی چائیے نا۔ پر نہیں۔ کہتے ہیں ” یار کیا کرنی ہے صفائی کرکے”۔ اور بھائی صفائی نہیں کرنی تو گند بھی نہ ڈالا کرو۔ اور اگر ڈالتے ہو تو صاف بھی کر لیا کرو۔برتن سنک میں پڑے ہیں تو پڑے رہیں، شاید ہی کبھی دھوئے ہوں۔ کھانا خود بنانا نہیں آتا اور جن کبھی بنا لیں تو کبھی نمک کم تو کبھی مرچ تیز۔ میں تو کھاتا نہیں تھا کھانا پر مجبورا ایک نوالہ ضرور چیک کرواتا۔ جسے کھا کر عجیب سی کیفیت ہوتی۔ اور پھر اُسی کھانے کی جب تعریف کی جاتی کہ ”یارررررر۔۔ کیا زبردست کھانا بنایا ہے میں نے”۔ اچھا یہ زبردست تھا؟؟؟ زبیدہ آپا تک کوئی یہ بات پہنچا دے کہ اُن سے اچھا کھانا بھی کوئی بنا رہا ہے۔ اور پھر اگلے دن جتنا کھانا تھا سب کچرے میں۔ کیوں پھینک رہے ہیں ؟؟ ”یار ایک چیز روز روز نہیں کھائی جاتی”۔ اچھاااااااااااااااااااااااااااااااااااااا

تو بھائی پکاتے ہو تو کھایا تو کرو جب اتنی اچھی بنی ہے اور اللہ کے رزق کو ضائع تو نہ کیا کرو۔

مُنہ زبانی تو بہت بار کہہ چکا، اب ہاتھ زبانی بات ہوگی۔ اللہ مجھے صحت اور تندرستی عطا فرمائے۔آمین۔

 

 

Thursday, March 15, 2012

کوئی توپ چیز نہیں ۔۔۔

بلاگ شروع کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میری اُردو بہت اچھی ہے اور موٹے موٹے الفاظ میری سمجھ میں آتے ہیں یا میں کوئی بہت بڑی توپ ہوں ( چھوٹی توپ ضرور ہوں )۔

اُردو فورمز پر کسی زمانے میں بہت فعال رہا ہوں۔(بہت فعال سے مُراد ”بہت فعال” ہی ہے )

دن رات نام (یوزر نیم) یہ سوچ کر ہرگز نہیں رکھا گیا تھا کہ دن رات صرف نیٹ کی ہی زینت بن کے بیٹھا رہوں، بلکہ اِس کے پیچھے مقصد کوئی بھی نہیں تھا۔ ہماری ایک کزن صبح شام کے نام سے کسی زمانے میں لکھا کرتی تھیں اُن کی دیکھا دیکھی اور ملتا جلتا نام ”دن رات” ہی ذہن میں آیا اور رکھ لیا۔ یہ اور بات کہ پھر میرا آنا نیٹ پر ایسا ہوا کہ ”دن رات” یہیں فورمز پر گزر جاتے۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ کوئی کام وام نہیں تھا اِسے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ زمانہِ طالب علمی تھا اور پڑھائی سے انٹر کے بعد کوئی خاص محبت بھی نہیں تھی۔ خیر ۔۔۔۔ مجھے اِس بات کا طعنہ بھی فورمز پہ کافی ممبران مارتے تھے کہ یہ تو یہیں بیٹھا رہتا ہے، جاسوس ہے، سب پر نظر رکھتا ہے، اپنی پوسٹس بڑھانے کے چکروں میں رہتا ہے اور ناجانے کیا کیا۔ حیرت کی بات یہ کہ لوگ اِس بات پہ بھی حسد محسوس کرتے تھے کہ یہ پوسٹ زیادہ کرتا ہے۔

ایک فورم چھوڑا دوسرا فورم، دوسرا فورم چھوڑا تو تیسرا اور سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ کچھ نئے شاعر جن کے اپنے فورم تھے وہ دعوت دیتے رہے اور میں شامل ہوتا رہا۔ اور پھر یہ سلسلہ کافی عرصہ تک بند رہا۔ مصروفیات بہت بڑھ گئیں اور اُردو لکھنے اور پڑھنے سےدلچسپی ختم ہونا شروع ہوگئی۔

میں نے اوپر ذکر کیا کہ میری اُردو نا تو اچھی ہے اور نا موٹے اور بھاری بھرکم الفاظ میری سمجھ میں آتے ہیں اور شاید ہی کبھی آئیں گے۔ بلاگز پر اکثر لکھاری بہت سُلجھی اور ہائی فائی اُردو لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔

اِس بلاگ پر بہت سادہ اور آسان اُردو میں میری طرف سے لکھا جائے گا اور کبھی کبھار گفتگو کے درمیان ایسے الفاظ بھی شامل ہوں گے جو میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتا ہوں ( گالی گلوچ مطلب ہرگز نہیں، اُس سے میرا دور دور تک کوئی لنک نہیں)۔

قارئین سے التماس ہے کہ اگر کوئی مخلص مشورہ ہو تو ضرور دیں (ورنہ اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھیں :) )۔

Wednesday, March 14, 2012

اپنے کام سے کام

یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے۔ ایک بندہ اگر کوئی کام کرتا ہے(کام سے مُراد اچھا یا بُرا نہیں، کوئی بھی ایسا کام جس سے کسی کو نا تو فائدہ کو اور نا نقصان) اور کرنے والے بھی اِس چیز سے واقف نا ہو کہ جو وہ کر رہا ہے کسی کو فائدہ پہنچا رہا ہے یا نقصان، بس وہ من موجی سا بندہ ہو اور کچھ کام کرے۔

مثلا:

میں اپنا موبائل ٹی وی ٹرالی کے پاس رکھتا ہوں۔

اب یہ ایک ایسا کام ہے جو کسی کو نا نقصان پہنچا رہا ہےاور نا فائدہ۔ بھلا ایک موبائل فون کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خیر۔ کوئی جناب آئے اور اسے وہاں سے اُٹھا کر کہیں اور رکھ دے، ایسی جگہ جہاں (جس کا موبائل ہے) وہ تلاش کرنے پر مجبور ہو جائے کہ ابھی تو یہاں رکھا تھا کہاں چلا گیا۔ اور جب کسی بندے سے(جس نے موبائل وہاں سے اُٹھا کر کہیں اور رکھا ہو) پوچھا جائے کہ آپ نے میرا موبائل تو نہیں دیکھا؟ اور جواب ملے کہ میں نے وہاں سے اُٹھا کر کسی اور جگہ رکھ دیا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ موبائل کس کا تھا؟ (ظاہر ہے میرا)

دوسری بات یہ : آپ اُسے وہاں سے کیوں اُٹھا رہے ہیں ؟

تیسری بات یہ :  اگر آپ اُٹھا بھی رہے ہیں تو بتا کر اُٹھتے کہ میں اسے فلاں جگہ رکھ رہا ہوں۔

تو پہلے سوال کا جواب تو آپ کو معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔ دوسری بات کا جواب اگر اِس طرح سے ملے کہ وہ موبائل وہاں پڑا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا، یا ”اپنی چیزیں اپنے پاس رکھا کرو”۔ اور تیسری بات کہ اگر بتا کر اُٹھاتے تو اچھی بات ہوتی کہ بھائی آپ کا موبائل میں اُٹھا کر فلاں جگہ رکھ رہا ہوں۔ مینرز بھی تو یہی ہوتے ہیں۔

ب رہی اصل مُدے کی بات۔ بھائی آپ کو موبائل وہاں پڑا اچھا کیوں نہیں لگ رہا تھا؟ اور میں اپنی چیزوں کو اپنے پاس رکھا کروں ؟؟


بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ آیا اِسے موبائل سے تکلیف ہے یاں مجھ سے ؟


اب آپ ہی باتیں موبائل فون کہیں رکھا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے اُسے وہیں رہنے دیں گے۔ جس بندے کا ہے وہ خود آ کر اُٹھا لے گا۔


جو بندہ بھی کوئی کام کرتا ہے وہ اس کا اپنا فعل اور اس کے اچھے بُرے کا مالک ہوتا ہے۔ خاممخواہ کی بحث لڑائی یا جھگڑا کرنے کا فائدہ ؟ دا پوائنٹ اِز کسی سے بُرا عمل کرو گے تو مخالف بھی اُس کے ساتھ بُرا عمل کرے گا، اچھی فعل کروگے تو اگلا بندہ بھی آپ کو اچھے فعل سے گریٹ کرے گا۔


خدارا کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نا کریں، اور اگر کریں تو پھر یہ توقع نا رکھیں کہ مخالف آپ کی بات کو سُنے ۔ آپ کسی انسان کو بُرا کام کرنے سے منع تو کر سکتے ہیں پر اُس کر زبردستی عمل نہیں کروا سکتے۔اور اچھا کام تو دُنیا میں بہت کام لوگ ہیں تو کرتے ہیں اور اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ضرور کریں۔اور اپنی رائے کا اظہار ضرور کیں پر اچھے لب و لہجے میں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرتے ہوئے زندگی گزاریں.

Tuesday, March 13, 2012

ملباری

ملباری قوم پتا نہیں کیا کھاتی ہے جو ہر چیز میں کاروبار اور پیسہ ڈھونڈ لیتی ہے۔

چند مثلیں پیش کروں۔

کل ایک ملباری ہوٹل میں کھانا کھانے گیا۔ ہمیشہ کی طرح ویٹر نے وہی ایک مینو سامنے رکھا اور شروع ہوگیا۔” چکن چُکا، مٹن چُکا، مکن کری، مٹن کری، بیف فرائی، انڈہ فرائی، انڈہ بھُرجی، بریانی، سبزی دال”۔ اور میں نے ہمیشہ کی طرح کہا ”وہی”۔

”چپاتی کھائےگا کہ پروٹھا؟”۔ اور میں نے کہا ”پروٹھا”۔

چند لمحوں واپس آیا تو بولا ” باروچی نہیں ہے۔ باہر گیا ہے۔ کچھ اور مانگتا”۔ میں نے اور تو کچھ کھانا نہیں تھا۔ ایک چیز تو وہاں اچھی ملتی تھی وہ ہی نہیں تھی۔ تو میں نے کہا ” چلو چکن چُکا لے آؤ”۔

وہ ابھی جانے والا تھا تو میرے کولیگ نے کہا ”میں نے تو وہی کھانا ہے جو پہلے آرڈر کیا تھا۔ جب باروچی آئے گا تو آ جائیں گے”۔ میں نے بھی حامی بھری۔ ملباری کو یہ محسوس ہوا کہ گاہک نکلنے والے ہیں(حالانکہ ایسا ارادہ نہیں تھا) اور واپس نہیں آئیں گے اور پیسے کہیں اور نکل جائیں گے۔ فورا بولا ” بیٹھو میں بنا کر لاتا ہے”۔

ہم اُس کو جاتے دیکھ رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے کہ ملباری نے جانے نہیں دیا۔ پانچ سات منٹ بعد آیا اور وہی آرڈر جو پہلے دیا تھا لے کر آیا۔(حالانکہ باورچی موجود نہیں تھا)۔ سیانہ کہیں کا۔ خیر ہم نے کھانا شروع کیا۔ جب سے یہاں آیا ہوں ہمیشہ یہ تجسس رہا ہے کہ یہ ملباری آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں اور میں اپنے ایک ملباری کولیگ سے تھوڑے بہت ملباری الفاظ سیکھ بھی رہا ہوں۔ خیر کھانا ختم ہوا میں نے حساب لگایا کہ کتنے پیسے بنے ہوں گے۔

” اُن، رنڈ، مُون، ناڑ، انج، آڑ، ییڑ ۔۔۔۔ ” میں بڑبڑا رہا ہوں اور ویٹر کہیں سُن رہا تھا تو ہنسنا شروع ہوگیا۔ کہ میری زبان بولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے شروع میں بتایا نا کہ ملباری پیسے نہیں جانے دیتے کہیں اور اگر کہیں سے سمجھتے ہیں کہ کمائی کی جا سکتی ہے تو ضرور کرتے ہیں۔

ویٹر بولا: ” تم دونوں کو ملباری سکھائے گا ہم”۔

میں نے کہا یہ تو اچھی بات ہے۔ بولا :” میرے کو تم دس دینار دینا مانگتا میں تم کو اچھے سے سیکھائے گا”۔

او تیری خیر۔

ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھنا شروع، اور ہنس ہنس کے بُرا حال۔ کر دی اس نے پھر ٹپیکل ملباریوں والی بات۔ میں نے کہا بھائی تو پیسے لے کہ سیکھائے گا، ہم سیکھے گا ہی نہیں۔ ویسے سیکھانی ہے تو بول۔ نہیں مانا۔ اور دانت نکال کے کہنے لگا۔ ” کیا صاب دس دینار ہی تو ہے”۔

ہم نے کاؤنٹر ہر پیسے دیئے اور باہر نکل آئے اور اُس کی بات کرتے رہے کافی دیر کے ملباری پیسہ نہ جانے دیتے ہیں اور کمانے کے اِن کے پاس بہت طریقے ہیں۔ اور آخر میں بتاتا چلوں۔

ہم نے ”انڈہ بھرجی” کا آرڈر دیا تھا۔

Monday, March 12, 2012

مالٹا بےچارہ۔۔۔

کچھ لوگ بہت عجیب و غریب طبعیت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہمی اتنے کے چھوٹی چھوٹی بات کو دل و دماغ پر سوار کر لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس بندے کو کوئی تمغہ دیا جانا چاہئے۔ آج کل کچھ ایسا میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ وقت گزر رہا ہے جو انتہائی وہمی ہے۔


سارا دن گھر میں پلان بنایا جائے گا کہ آج بازار سے کیا کیا لایا جانا ہے۔ پوری لیسٹ تیار کی جائے گی۔ فُل تیار ہو کر ( جیسے رشتہ لینے جا رہا ہو) کلون لگا کر (جیسے کبھی نہایا نہ ہو) نکلے گا اور پھر جس کام کے لیے جانا تھا وہاں نہیں جائے گا۔ رستے میں کوئی فروٹ والا ملا اُس سے دام پوچھ لیا۔ پانچ دس منٹ صرف اسی میں لگا دیے کہ مالٹا پہلے تم اتنے پیسے میں چار درجن دیتے تھے آج تین درجن کیوں؟ اور پھر یہ نہیں کہ ایک ریڑی سے پوچھیں۔ مارکیٹ جاتے جتنے فروٹ والے ملیں اُن سے مالٹے کے دام پوچھے جائیں گے۔ مالٹا بےچارہ بھی سوچتا ہوگا کہ یہ کون مجھے خریدنا چاہ رہا ہے۔اور دعا کرتا ہوگا کہ خدارا جھوٹ ہی ہو جائے کہ یہ مجھے آج خریدے۔مارکیٹ پہنچتے پہنچتے اتنے بندوں سے دام پوچھ لیں گے کہ آخر میں فیصلہ ہوگا کہ فروٹ مارکیٹ بھی تو وہیں پاس میں ہی ہے۔ سودا سلف لے کر واپسی پر وہاں سے ہوتے چلیں گے۔


مارکیٹ پہنچنے پر سب سے پہلے جوس لیں گے کہ گھر سے یہان پہچنتے بہت پیاس لگ رہی ہے۔ پھر لیسٹ نکالی جائے گی اور مختلف سیکشنز کی طرف اپنی کارٹ کو لے کر گھومنے نکل جائیں گے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ورلڈ ٹور پر آئے ہیں۔ جو کام ایک گھنٹے میں کیا جا سکتا ہے وہ چھ گھنٹے میں بھی مکمل نہیں ہوگا۔ایک ایک چیز کو چیک کریں گے۔ ایکسپائیر تو نہیں ہوگئی۔ ابھی کتنے دن باقی ہیں، یہ اچھا برینڈ نہیں ہے۔ اوہو اس برینڈ کی قیمت تو بہت زیادہ ہے۔ ابھی دو دن پہلے تو اتنی تھی۔ چلو کوئی اور دیکھ لیتے ہیں۔ اور وہاں موجود ایسی چیز لیں گے جو نا تو اِن ہوتی ہے اور شاید مارکیٹ میں سب سے ”تھکڑ” بھی ۔ لیسٹ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔(نام لینے دیں تو نا)۔


لیسٹ میں لکھی کافی چیزیں پین سے کاٹ دی جاتی ہیں کہ اُن کی قیمت یا کوالٹی اُن کے معیار کے مطابق نہیں اُترتی۔ کافی سے مراد تقریبا ساری ہی ہوتا ہے کیونکہ موصوف کو وہم ہو جائے کہ یہ چیر صحیح نہیں تو پھر وہ صحیح بھی ہو تو خراب ہوجاتی ہے۔ اللہ اللہ کر کے مارکیٹ سے شاپنگ پانچ،چھ گھنٹے میں ختم ہوجاتی ہے۔ پھر رُخ ہوتا ہے فروٹ مارکیٹ کا۔


مالٹا بےچارہ۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب اس بےچارے کی سنی نہیں جاتی۔ فروٹ مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی سبزی اور فروٹ کے دام پوچھے جاتے ہیں۔ یہ کتنے کا ہے وہ کتنی کی ہے، اور پھر وہی بحث شروع۔ مالٹے کے دام پوچھے تو ریڑی والے کے بتائے دام سے زیادہ۔ اس بےچارے کو وہاں سنا دیتے ہیں کہ ہمارے محلے میں تو اتنے کے دے رہا تھا، یہ سوچ کر یہاں آئے تھے کہ سستی اور اچھی چیز مل جائے گی پر لگتا ہے اُسی سے جا کر خریدنے پڑیں گے۔مزا تب آتا ہے جب دکاندار کہتا ہے بھائی دماغ خراب نہ کر آگے چلتا ہو۔ اتنا ہی سیانہ تھا تو وہیں سے خرید لیتا یہاں کیا ”آم لینے آیا ہے”۔ پھر جناب کا منہ ایسا بنتا ہے کہ بَڑ بَڑ شروع۔ خیر فروٹ مارکیٹ میں کوئی ایسا بندہ نہیں جو فروٹ ان کی قیمت اور معیار کے مطابق دے۔ ہاتھ میں سودا پکڑے ساری فروت مارکیٹ گھوم کر جب تھک جائیں گے تو کہیں گے۔” مالٹے بلڈنگ کے نیچھے کھڑے ریڑی والے سے ہی لیں گے۔ روز کے گاہک ہیں اس کے، کچھ دید لحاظ تو کرتا ہے نا”۔دل تو کرتا ہے کہ وہاں موجود سب فروٹ فروشوں سے اس کی پٹائی لگواؤں۔


جب تک گھر پہچتے ہیں راستے میں کسی بھی ایسی دکان میں گھس جائیں گے اور بلاوجہ کوئی بھی چیز اٹھا کر اس کے دام ضرور چیک کریں گے۔ لینا شینا کچھ نہیں ہوگا بس ایک وہم جو کہ پورا نہیں ہو رہا تھا پورا کیا جاتا ہے۔ بلڈنگ کے نیچے کھڑے بُندو سے مالٹے لیں گے اور اس بار کوئی بارگیننگ نہیں کریں گے۔ بس اتنا کہیں گے ”یار ہم تو تمھارے پُرانے گاہک ہیں” وہ بےچارہ ایک نظر دیکھتا ہے اور انہیں وہاں سے بھگانے کے لیے دو مالٹے زیادہ ڈال دیتا ہے۔ یہ اسی میں خوش ہیں کہ مارکیٹ سے دو مالٹے زیادہ لے کر آ رہا ہوں۔ میں ہر بار یہی سوچتا ہوں کہ اس بار ان موصوف کے ساتھ مارکیٹ کا رُخ نہیں کرنا پر ہر بار کوئی نا کوئی بہانا بنا کر ساتھ لے کر جائیں گے۔ اور یہ سب لکھنے کا مقصد یہی تھی کہ بائی فیس تو شاید میں اپنے غصے کا اظہار نہ کر سکوں پر اگر وہ اس کو پڑھیں تو کچھ تو شرم محسوس کریں۔ پر مجھے پتا ہے ایسا ہونے والا نہیں۔ ابھی ایسی بہت سی وہمی باتیں ہیں جو آپ سے کے ساتھ شئیر کرتا باقی ہیں۔ اللہ مجھے صحت اور ہمت دے۔ آمین۔

Wednesday, March 7, 2012

جنگل میں آ گیا

اب کبھی وہاں سے گزر ہو تو اُسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی جنگل میں آ گیا ہے۔ سنسان۔ کوئی چوں چاں تک نہیں۔ مزے کی بات اُس جنگل میں گیدڑ بہت تھے۔ اور ان کا سردار بندر اور وزیر لومڑی۔ بہت چالاک شاطر مکار۔کب کیا کریں گے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ اُسے بہت ہوشیار رہنا پڑتا تھا۔ لومڑی یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس کے منصوبوں سے کوئی واقف نہیں ہوتا۔ اور اب بھی شاید وہ یہی سمجھی بیٹھی ہے پر اسے کیا معلوم کہ اب بھی اس پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ زخمی شیر بہت خطرناک ہوجاتا ہے۔ اور وہ بھی جب زخم گہرا ہو۔

Tuesday, March 6, 2012

وہاں کیا کیا ہوا

ایٹ لِیسٹ وہ ڈبل فیسڈ نہیں تھا۔ وہاں بہت سے لوگ ”دونمبر” تھے۔ مالک بھی اور اس کے نوکر بھی۔ سیاسی بیان بہت چلتے تھے۔ اگر کہا جائے تو اُسے سب کی خبر تھی۔ یہ بھی کہ وہ اُسکے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔ کوئی اتنی بڑی ڈیل بھی نہیں تھی۔ کون کب آتا، کیا کرتا، کس سے بات کرتا، کس بارے بات کرتا، کہیں نا کہیں سے علم ہو ہی جاتا تھا۔ آخر وہ بھی”دن رات” تھا۔

ایک چیز جو اُس نے وہاں جانی اور اس کو پلے سے باندھ لی وہ یہ کہ مخالف جنس کی بات کو لوگ زیادہ غور سے سنتے اور اس پر عمل کرتے ۔ چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نا ہو۔ اور یہ بھی کہ وہاں کوئی بھروسے کے قابل نہیں۔ سب سیاسی گیم کھیل رہے تھے۔ کھیلنی بھی چاہیے۔ یوں کہہ لیں کہ کندھا اُس کا ہوتا اور بندوق کوئی اور چلاتا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔وہ اتنا ”کاکا” بھی نہیں تھا۔

اُسنے یہ بھی بتایا کہ وہاں زیادہ لڑکے فلرٹی تھے۔ فلرٹ تو اُس نے بھی کیا تھا۔ پر ایک کے ساتھ اور وہ بھی زیادہ دن نہیں۔ شاید اُسے جس رسپانس کی توقع تھی وہ ملی نہیں۔ (دل ٹوٹ گیا تھا بےچارے کا)۔ پر اُس نے کبھی شو نہیں کروایا۔ نا اُس نے ذکر کیا کسی سے اور نا خود کبھی نام لیا اُس کا۔ راستہ بدل لیتا تھا۔ سخت مزاج تو وہ شروع دن سے تھا۔اور سب کو اُس کی یہی بات بھی بُری لگتی تھی۔ اور یہ بھی کہ غصہ بہت کرتا ہے۔اُس کا کہنا تھا کہ غلط کام ہوتا دیکھ کوئی بھی بھڑک اٹھے گا۔ تو اِس میں غلط کیا تھا اگر وہ ایسا کرتا تھا۔ (جاری)

Monday, March 5, 2012

خوش آمدید !! خوش آمدید !!

خوش آمدید !! خوش آمدید !!

بہت عرصہ بعد ملے دن رات ۔۔ کیسے ہو ؟ کہاں ہوتے ہو ؟؟ کیسی گزر رہی ہے ؟؟ خوش ہو؟؟ بہت عرصہ سے تلاش تھی تمھاری ۔۔ مجھے بھی اور بہت سے تمھارے ”چاہنےوالوں” کو بھی ۔۔ (:
چھ سالوں میں کچھ سیکھا کہ نہیں؟ یاں اب بھی ویسے ہی ہو ؟ کیسے ہیں تمھارے دوست یار ؟ کوئی خیر خبر اُن کی؟ بہت خوشی ہو رہی ہے تمھیں دوبارہ ” ان ایکشن ” دیکھ کر (: ۔

تھمارا دوست۔
دن رات ۔۔
Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی