Showing posts with label ذاتی پیغامات. Show all posts
Showing posts with label ذاتی پیغامات. Show all posts

Tuesday, October 23, 2012

جو ہوا اچھا ہوا ۔۔۔

اللہ نے جو فیصلے جب جب کرنے ہوتے ہیں تب تب ویسے ہو جاتے ہیں۔ ہماری قیاس آرئیاں ، سوچیں ، فیصلے اور ان کے نتیجے ہمیشہ ویسے نہیں ہوتے جیسا ہم پریڈیکٹ کر رہے ہوتے ہیں۔

چند دن پہلے میرا لکھا گیا بلاگ “یاں انّے تے یاں بنّے“ کچھ ایسے ہی احساسات کا نچوڑ تھا جو میں پریڈیکٹ کر رہا تھا۔ وہ کل جو آنی تھی وہ آئی اور آ کر چلی بھی گئی۔

بحث مباحثہ ہوا، بات کھلی، آپس میں انٹرایکشن ہوا کچھ وہ سمجھا کچھ میں سمجھا، نیتجہ یہ نکلا کہ بہت سے باتوں سے پردہ اٹھا، آنکھیں‌کھلیں ہم دونوں کی۔ یہ ملاقاتیں گر ہوتی رہیں تو باقی مسئلے مسائل بھی حل ہو جائیں‌گے۔ پر میں جیسا پریزیوم کئے بیٹھا تھا ویسا کچھ نہیں ہوا۔ شاید اس دن کی مانگی دعا قبول ہوئی یاں پھر ایسا ہی ہونا تھا۔ پر جو ہوا اچھا ہوا۔

دل و دماغ کو سکون پہنچا، پرسکون نیند آئی۔

Saturday, October 20, 2012

یاں انّے یاں بّنے

پچھلے دو ہفتے سے طبعیت میں عجیب سی بےسکونی بے چینی سے محسوس کر رہا ہوں۔ جتنا میں اُس بارے میں کم سوچنا چاہتا ہوں، میری سوچ اس بات کے اردگرد اور گھومنا شروع ہوجاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو ان دوہفتوں میں میرا کام میں بالکل بھی من نہیں لگا، جب تک کچھ باتیں کلئیر نہیں ہو جاتیں شاید تب تک ایسا ہی رہے یاں اس کے بعد بھی۔


دل کرتا ہے کہ بس سب چھوڑ چھاڑ کے کہیں بھاگ جاؤں، پر بھاگ کے کہاں جاؤں یہاں تو چاروں طرف سمندر ہے ڈوب جاؤں گا۔ اور یہ بھی کہ میں بزدل بھی نہیں کہلوانا چاہتا کیونکہ میں بزدل بھی نہیں۔ فیس کرنا چاہتا ہوں پھر دل کو دھڑکا بھی لگا رہتا ہے، پیٹ میں مڑوڑ پڑتے ہیں جیسے سالانہ نتیجے سے پہلے بچوں کو پڑتے ہیں۔


اور بھائی کیا چاہتے ہو مجھ سے کیوں مجھے پریشان کر رکھا ہے، کیا بگاڑ دیا میں نے تمھارا؟؟ بولو جواب دو۔


دل تو کرتاہے جاؤں اور دھڑلے سے جا کے کہہ دوں کہ پپو یار تنگ نا کر ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ !!!


میرے بس میں اس وقت کچھ نہیں ، سب اللہ کے ہاتھ میں دے رکھا ہے وہی میری تقدیر کا فیصلہ کرنے والا ہے، اب کر بھی دے، نا مجھے اور مشکل میں ڈالے۔


میری تیاری نہیں اس امتحان کے لیے۔ جو ہونا ہے ہوجائے، کل ہی ہوجائے یہ دعا اور التجا ہے میری۔ کچھ ایسا کردو کہ میں اس بھنور سے باہر نکلوں، یاں انّے یاں بّنے۔

Wednesday, April 11, 2012

مینوں کجھ ہو جاوے تے...

                                              یہاں ”عنایت سویٹس” بہت مشہور دکان ہے،جہاں سب پاکستانی چٹ پٹی اور مزےدار چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔پکوڑے، سموسے، دہی بھلے، فروٹ چاٹ، فالودہ، ہر قسم کی مٹھائی ۔ بحرین میں اور بھی سویٹس کی دکانیں ہیں پر عنایت سویٹس کا کوئی ثانی نہیں۔ جناب کم و بیش تیس سال سے یہاں مقیم ہیں، اور ماشاءاللہ بہت اچھا بزنس کر رہے ہیں۔


میرا دل کچھ چٹ پٹا کھانے کو کر رہا تھا، اپنے کولیگ سے ذکر کیا تو اس کا بھی دل للچایا۔ دونوں گپیں مارتے، بازار سے ہوتے عنایت کی دکان پر پہنچے۔ رستے میں میں زکریا صاحب کا ذکر کر رہا تھا جو میرے والد کے اچھے دوست تھی اور بحرین میں کافی عرصہ سے مقیم تھے۔ میں نے سوچا کہ عنایت سے اُن کے بارے دریافت کروں گا کہ اُن کی آرٹیفشل جیولری کی دکان بھی بازار میں ہی کہیں تھی اور والد صاحب کا سلام بھی پہنچانا تھا۔


کاؤنٹر پر آرڈر دیتے زکریا صاحب کے بارے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اُن کا اور اُن کے بڑے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔ سُن کر شاک لگا۔باقی دو بیٹے اب اُن کی شاپ سنبھلتے ہیں۔ عنایت نے اُن کی دکان کا پتہ سمجھایا اور واپسی پر اُن کی دکان پر جانے کا پروگرام بنا۔


پہلے سموسوں کی پلیٹ منگوا کر کھائی اور پھر بھلے۔ فارغ ہو کر کاؤنٹر کی طرف آئے تو کولیگ کو وہاں جلیبیاں پڑی نظر آئیں۔ اُس نے دو چار جلیبیاں لیں اور ہم زکریا صاحب کی دکان کی طرف چلنے لگے۔ وہاں پہنچے تو دکان بند تھی۔ کافی ٹائم ہوگیا تھا شاید اسی لیے۔ واپسی پر میرا کولیگ سارا رستہ عنایت کی بہت تعریف کرتا رہا کہ بہت اچھا بندہ ہے۔ سب تازہ پٹھائی وغیرہ بناتا ہے۔ اِس سے اچھے سموسے تو آج تک میں نے نہیں کھائے۔


کولیگ چونکہ میرا فلیٹ میٹ بھی ہے تو واپس آ کر اُس نے دودھ گرم کرنا شروع کیا۔میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے میں مصروف اور اتنا مگن کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ کب آیا اور ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھا۔ اُس نے جلیبیاں دودھ میں ڈالی اور کھانے لگا۔ آخری دو چار چمچ رہ گئے ہونگے تو معلوم نہیں کیا ہوا اُسے، زور زور سے چلانے لگا


”راتی میرا دھیاں ای رکھنا۔مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”


آئی واز لائک ۔” ہیںںںںںںںںںںں”


میں اس کا منہ دیکھنا شروع ہوگیا کہ اسے کیا ہوا اچانک؟؟


”او یار یہ عنایت بیپ بیپ بیپ، جلیبیاں ٹھیک نہیں۔ میرے منہ کا ذائقہ چینج ہو رہا ہے۔ باسی لگتی تھیں جلیبیاں”۔ اور نا جانے کیا کیا۔


یہ سب شور ختم ہوا۔ بعد میں اتنا ہنسے اس بات پر کہ پہلے اُس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا اور پھر ۔”مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”۔ :)

Tuesday, April 10, 2012

بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔

کل ایک مارننگ شو کی رپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھی۔ جس کا موضوع یہ سوال تھا


” کیا انعم کو عزیر کو معاف کر دینا چاہئے؟”


ہوسٹ رو رہی تھی۔ عزیر رو رہا تھا۔ انعم رہ رہی تھی۔ اُن دونوں کی  پیاری معصوم سی تین چار سال کی بیٹی باپ کو دو ماہ بعد دیکھ کر اُس سے لپٹ گئی، اور رونے لگی۔ اُس بچی کو دیکھ کر میرا دل بھی بھر آیا۔ جو نہیں جانتی تھی کہ وہ اس پروگرام میں کیوں آئی ہے، اُس کا باپ اتنے دن بعد اُس سے کیوں ملا ہے، اُس کی ماں اپنے خاوند سے الگ کیوں رہ رہی ہے۔


میزبان کے کہنے پر جب بچی نے اپنی ماں سے اپنے باپ کے لیے سفارش کی کہ ”امی گھر واپس چلیں نا”۔ تودیکھنے والے برداشت نہیں کر پائے ہوں گے۔


ابیھا(اگر میں غلط نہیں تو بچی کا نام تھا) جو اپنی ماں سے اِس معصوم سی خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔میاں بیوی کے جھگڑوں میں بچی ویران ہو رہی تھی۔ کافی منت سماجت کے بعد انعم نے عزیر کو معاف کیا اور عزیر نے بھی وعدہ کیا کہ وہ اب اچھا خاوند، اچھا باپ بن کے دکھائے گا۔


دیارِ غیر میں پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ابیھا کا سوال سُن کر مجھے اپنی بیٹی انابیہ کی یاد آئی جو جب بھی فون آتا ہے تو کہتی ہے ” بابا آپ گھر آجاؤ نا”۔


بیٹیاں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔

Monday, April 9, 2012

ایک چُپ سو سُکھ ۔۔۔

میں لکھنا نہیں چاہ رہا جو میں لکھنا چاہتا ہوں پر۔۔۔۔ ہنسی آتی ہے لوگوں کی باتیں پڑھ کر، سُن کر جب وہ آپ کو نصیحت کرتے ہیں حقائق جانے بغیر۔ایسے لوگوں کا میں تو کیا کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔بہتر یہی ہے کہ انہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔سوال کرنے کا وہ حق رکھتے ہیں ، جواب دینے نہ دینے کا حق میرے اختیار میں ہے۔


اچھے لوگ ہی اچھی نصیحت کرتے ہیں، اور اُن کی نصیحت پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ کسی کے بارے میں جانے بغیر آپ کوئی رائے نہیں دے سکتے، یہ بات مجھ سمیت سب پر لاگو ہوتی ہے۔


سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ اِس میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جسے مخاطب کیا جا رہا ہے آپ اُسے سمجھدار سمجھ رہے ہیں اور دوسری یہ کہ آپ اُسے  عزت دے رہے ہیں۔اب کوئی اس بات سے انکاری ہے کہ وہ سمجھدار نہیں تو ٹھیک ہے، مان لیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی انہیں سمجھدار سمجھنے میں۔اُسکے لیے ہم معذرتخواہ ہیں۔آئندہ احتیاط کریں گے۔


بزرگوں کی بات سُننا چاہئے۔ بات سُنی بھی اور خاموش بھی رہے۔ میرے خیال میں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔


اللہ پاک آپ سب کو اور مجھے ہدایت کی راہ پر چلائے۔ آمین۔

Sunday, April 8, 2012

چھاپا...

میرے ایک بھائی نے بلاگ پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ میں بہت زیادہ پوسٹس کرتا ہوں اور اُن کا خیال ہے کہ کاپی پیسٹ کا اچھا استعمال کرتا ہوں۔ :)


 


اُن کا کامنٹ تو میں نے منظور نہیں کیا، البتہ اُن کو جواب ضرور دینا چاہوں گا۔


 


تو میرے بھائی پہلے تو آپ کو یہ مسئلہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں کتنی پوسٹ کرتا ہوں۔ ایک پوسٹ کروں، دس کروں یا سو۔ آپ کو اگر اچھا نہیں لگ رہا تو آپ میرے بلاگ کو نظرانداز کر دیا کریں۔ اور دو دن چھٹی ہوتی ہے دفتر سے اِس لیے کل اور پرسوں میں نے کوئی پوسٹنگ نہیں کی۔


دوسری بات رہی کاپی پیسٹ والی تو جناب آپ مجھے یہ بتائیں کہ کون نہیں کرتا کاپی پیسٹ؟؟ آپ نہیں کرتے ؟؟ باقی سب نہیں کرتے ؟؟ اور اگر میں کاپی پیسٹ کرتا بھی ہوں تو اُس کا حوالہ بھی دیتا ہوں۔ افسانے، غزلیں، لطائف یہ سب میں کسی نہ کسی فورم پہ خود لکھ کر پوسٹ کر چکا ہوں، تو بجائے دوبارہ محنت کرنے کے کیوں نہ وہیں سے کاپی پیسٹ کروں؟؟ :) ۔۔ ٹھیک ہے نا۔


اب اگر آپ یہ کہیں کہ ” میرا یہ کہنے کا مقصد نہیں تھا” تو جناب مقصد آپ کا جو بھی رہا ہو، میرے دل کو آپ کی بات پسند نہیں آئی۔ آپ کو اگر اتنی ہی پرابلم ہے میرے بلاگ یا میرے پوسٹ کرنے سے، تو ہوتی رہے۔ ہم چھاپا مارنے سے باز نہیں آئیں گے۔ :)


 


میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اچھے اور بامقصد مشوروں پر غور کیا جائے گا۔


اللہ آپ، مجھے اور سب کو اچھا صحت عطا فرمائے۔ آمین

Sunday, April 1, 2012

دروازہ بند کر لو ۔۔۔

سرکاری چھٹیاں بلاگ سے بھی چُھٹی کروا دیتی ہیں۔ اب یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ بلاگ پر جمعہ ہفتہ چُھٹی ہوا کرے گی۔

 

آپ کتنی دیر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں ؟؟

آپ کتنی دیر انٹرنیٹ پر ویڈیو یا وائس چیٹ کرسکتے ہیں ؟؟

آپ کتنی دیر خود کو کمرے میں بند کرکے ویڈیو یا وائس چیٹ پر اونچی آواز میں بےتُکے اور بےمعنی مشورے دے سکتے ہیں ؟؟ (اور وہ بھی ایسے شخص کو جو آپ سے جان چُھڑانا چاہ رہا ہو)۔

اِن سوالوں کا اگر میں خود سے جواب دوں تو وہ یوں ہوں گے۔

 

انٹرنیٹ زیادہ سے زیادہ پانچ سے چھ گھنٹے جن میں متعدد بار بریک ہوں گی۔ میرے خیال میں تو یہ بھی زیادہ ہیں۔

ویڈیو یا وائس چیٹ ایک گھنٹہ زیادہ بولنا پسند نہیں کیونکہ حال احوال کے بعد ”اورسناؤ، اور، اور کوئی نئی تازی” کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ویڈیو چیٹ میں دیکھنے اور دیکھانے والا ایک دوسرے کی صورت کتنی دیر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو ایک گھنٹہ بھی بڑی مشکل سے برداشت کر سکتے ہوں گے۔

تیسرے سوال کا جواب یوں ہے کہ کمرے میں بند ہوئے بغیر بھی بےتُکے مشورے دیئے جا سکتے ہیں۔ اور اگر دیکھنے والے کے چہرے سے معلوم ہو جائے کہ برداشت کر رہا ہے مجھے تو فورا بات ختم کر دی جائے اور اللہ حافظ کہہ دیا جائے کہ اِسی میں بھلائی ہے۔

نیٹ استعمال کرتے کمرہ بند کرنے کی تھوری اور اس پر عمل آج تک سمجھ نہیں آیا۔ کیا نیٹ کمرہ بند کئے بغیر بھاگ جاتا ہے ؟؟ اور نہیں تو کیوں خود کو سزا دی جا رہی ہے۔اگر آپ اتنی ہی خفیہ بات چیت کرنا چاہ رہے ہیں تو کم سے کم اپنی آواز کو دھیما تو رکھیں نہ کہ گھر میں موجود باقی افراد کو آپ کی یہ ”خفیہ” بات سنائی دے۔

اب اگر یہی سوال میں اپنے فلیٹ میٹ سے پوچھوں تو وہ عملی طور پر آپ کو یہ سب کرکے دیکھائے گا۔ سوالوں کے جواب یوں ہوں گے۔

میں کم سے کم اٹھارہ سے بیس گھنٹے نیٹ یوز کر سکتا ہوں اور انِ میں بریکس اتنی ہوسکتی ہیں کہ پانی پینے اُٹھوں اور واپس آ جاؤں۔ کھانا میں اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ کھانا پسند کرتا ہوں۔ :)

آپ مجھے سے جتنی دیر مرضی وائس یا ویڈیو چیٹ کروا لیں میں ہار نہیں مانتا۔

کمرے میں بند ہونے کی وجہ یہی ہے کہ آپ مجھے نہ دیکھ سکیں اور نہ سُن سکیں کہ میں کن سے اور کس سلسلے میں گفتگو کر رہا ہوں۔ پراویسی بھی تو ہونی چاہئے نا۔ اور اونچی آواز میں اس لیے بات کرتا ہوں کہ سُننے والا بہت دور بیٹھا ہوتا ہے اُسے  میری بات صحیح سے سُنائی دے جائے۔دراصل مجھے مفید مشورے دینے کا بہت شوق ہے۔ اور میں زیادہ دیر مشورہ اپنے اندر نہیں رکھ سکتا۔ مشورہ پھدک رہا ہوتا ہے اندر ، کہ مجھے باہر نکالو۔ اور بریک میں اس لیے نہیں لیتا کہ بہت سیریس گفتگو ہو رہی ہوتی ہے، میں نہیں چاہتا کہ مجھ سے بات کرنے والا یہ سمجھے کہ مجھ سے بات کرنےمیں سیریس نہیں ہے۔

اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مثال دیں گے کہ جن سے بات کر رہا تھا وہ بہت پریشان ہے، بیوی بات نہیں سُنتی، گھر میں لڑائی رہتی ہے کیا کروں؟؟ مجھے یہ بات سُن کر ہنسی آئی کہ مشورہ کس سے مانگ رہا ہے۔ بیوی بات نہیں سُنتی تو اِس میں تمھارا دوست کیا کرے ؟؟ اور گھر میں لڑائی ہے تو لڑائی دوست نے کروائی ہے جو اُس سے دکھ سکھ شئیر کر رہے ہو؟؟ اور مشورہ دینے والا جب یہ مشورہ دے کہ بیوی بات نہیں سُنتی تو تم بھی نہ سُنا کرو :) اور گھر میں لڑائی ہے تو تم بھی دو چار ہاتھ مار لیا کرو :) ۔۔ تو بھلا آپ کیا کہیں گے :)۔

میرے خیال میں نیٹ ایک فائدہ مند چیز ہے جسے آپ کمرے بند کیے بغیر بھی اور زیادہ سے زیادہ میل یا کبھی کبھار ویڈیو یا وائس چیٹ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اگر نہیں تو کم سے کم دوسروں کو اپنے ”مفید” مشورے نہ دیں۔ اور نہ اسے کام کریں جس سے آپ کو کمرہ بند کرنا پڑے :)۔

دراصل سب اُلٹے کام دروازہ بند کرکے ہی کئے جاتے ہیں۔

Thursday, March 29, 2012

میں بھُلیا تے نئیں ۔۔۔

چھ سال ہوگئے نا !!! :) وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔

 شاید ہی میں کبھی لیٹ ہوا ہوں۔ رات آلارم بجا تو دیکھا کہ آج کا دن تو سپیشل ہے۔ اُس وقت تو میسج کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دفتر آتے ہی سب سے پہلے تمھیں میسج کیا۔

 اللہ تمھیں خوش رکھے۔ ڈھیر ساری دعائیں ہیں تمھارے لیے۔ خوش رہو، سُکھی رہو۔

 تم نے مجھے بہت برداشت کیا ہوگا اور آگے بھی کرنا پڑے گا۔  اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ تم جیسا دوست مجھے ملا۔

Tuesday, March 27, 2012

بلاگ پرابلم ۔۔۔

بلاگ پر ایک پرابلم آ رہی ہے اور کافی ممبران شکایت بھی کر رہے ہیں کہ آپ کے بلاگ پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ورڈپریس کا اکاؤنٹ ہونا لازم ہے۔ اور کچھ حضرات کے تبصرے تو مجھے سپیم میل میں بھی ریسیؤ ہو رہے ہیں۔ میں نے تمام پرائیوسی آپشن ان چیک کر دیئے ہیں، پر مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مختلف بلاگز پر اور فورمز پر بھی اس پرابلم کے بارے پوچھ چکا ہوں پر کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔میں نے سوچا ہے کہ اگر یہ حل نہیں ہوتا تو رہنے دیں۔ جن حضرات کو میرا بلاگ پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا دل کرے وہ ورڈپریس کا اکاؤنٹ بنا لے پر تبصرہ کرے، اس طرح گمنام پیغامات ارسال کرنے والوں سے بچا رہوں گا اور تبصرہ کرنے والوں کی سوچ سے بھی واقف ہو جاؤں گا۔ کیسا ؟؟؟ :)

تو جناب کُھل کر تبصرہ کریں پر چُھپ کر نہیں، ویسے بھی گمنام لوگ خطرناک ہوتے ہیں۔ میں خود کافی عرصہ گمنام رہا ہوں اور تمام گمنام سرگرمیوں سے واقف ہوں۔ ہاں البتہ جیسے ہی یہ مسئلہ کوئی کلیر کرواتا ہے تو آپ سب کو گمنام پیغامات ارسال کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا آخر یہ آپ کا حق ہے۔ ممبران کے تبصرے مجھے ای میل کے ذریعے موصول ہوتے ہیں جنھیں میں منظور یا نامنظور کرنے کا حق رکھتا ہوں۔

میرے چند بہنیں بلاگ تھیم کے بارے بھی شکایت کر رہی تھیں کہ لکھائی پڑھی نہیں جاتی (عینک لگوانی پڑئے گی) اور بیک گراؤنڈ رنگ کالا ہے تو میں دو دنوں میں دو بار تھیم بدل چکا ہوں، اب بھی کسی کو شکایت ہے تو تھیم پھر بدل دیا جائے گا۔ کوئی اچھا سا تھیم ورڈپریس میں ہو تو ضرور بتائیں۔ اور ایک بات کہ یہ دفتری سسٹم ہے اور یہاں سب سافٹوئیرز آئی۔ٹی ڈیپارٹمنٹ انسٹال کرکے دیتا ہے، اُردو فانٹ میں نے کچھ انسٹال کروائے تھے پر ورڈپریس میں شو نہیں ہوتے، اس کی بھی رہنمائی فرمائیں۔

اچھے اور مفید مشوروں پر عمل کیا جائے گا۔

انشاءاللہ۔ اللہ سب کو تندرستی اور صحت عطا فرمائے۔ آمین۔

 

 

Monday, March 26, 2012

کوّے کی کائیں کائیں

بلاگ پر وزٹ کرنے والوں میں کچھ بحرینی بھی شامل ہیں، اُن سے گزارش ہے کہ آتے رہا کریں اور پڑھاتے رہا کریں۔:)

ٹی وی چینلز پر سوائے بُری خبروں کہ کچھ نہیں رہا۔ کل کے پورے خبرنامے میں ایک اچھی خبر نہیں تھی کل کیا گیارہ ستمبر کے بعد سے کوئی اچھی خبر شاید ہی سنی ہو۔

یہ نیوز کاسٹر صبح ضرور اپنے پیر و مرشد ”کوے” کو حاضری دے کر آتے ہونگے اور وعدہ کرتے ہونگے کہ آج سب سے زیادہ ”کائیں کائیں” میں کرکے آؤں گا۔ اور ٹی وہ چینلز بھی سب کو کائیں کائیں کرنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں۔اور خبرنامہ خبرنامے سے زیادہ قتلنامہ لگتا ہے۔

”جی سب سے پہلے آپ کو یہ خبر فلاں نیوز چینل پہنچا رہا ہے”۔

” جی بٹ کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟؟ کتنے لوگ مرے، کیا یہ خودکش حملہ تھا؟ کس گروہ نے ذمہ داری قبول کی ہے؟؟”۔

” آپ کو ایک بار پھر بتاتے چلیں، فلاں جگہ پر فلاں نے فلاں کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا ہے”۔

ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ فلاں سیاسی جماعت کے کارکن پر حملہ ہوا ہے”۔

یہ خبر سب سے پہلے ۔۔۔۔۔۔ وہ خبر سب سے پہلے ۔۔۔

چینل چینج کرو تو پچھلے چینلز سے بڑے کوّے کائیں کائیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اور مجال ہے کہ ایک بھی خبر پوری تصدیق کرنے کے بعد نشر کی گئی ہو۔ گلا کسی خبر کا ہوتا ہے اور دھڑ کسی خبر کا۔ اور مرچ مصالحے ڈال کر یہ نیوزکاسٹرز پیش کر دیتے ہیں۔

اور کبھی کبھار تو ایسی خبریں بھی نشر کی جاتی ہیں کہ بندہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ”یہ خبر تھی !!”۔

”فلاں اداکارہ آج اپنی اٹھارویں سالگرہ منا رہی ہیں”۔

تو بھائی منانے دو۔ہم بھی منایا کرتے تھے، ہماری خبر تو کبھی نہیں دی۔

”فلاں اداکارہ نے ہرن کے بچے گود لے لیے”۔

اچھا! ہیںںںںںںںںں ۔۔۔ انسانوں کے مر گئے کیا؟؟

”فلاں سیاستدان کو استثناء حاصل ہے”۔

کیوں بھئی؟؟ پھوپھی کا لڑکا ہے ؟؟ جو اُسے حاصل ہے، باقیوں کو نہیں۔ اور اگر حاصل ہے بھی تو مائی فُٹ۔

”فلاں سیاستدان بیرونی ملک دورے پر چلے گئے، وہاں سے وہ وہاں اورپھر وہاں بھی جائیں گے”۔

اچھا !! خود عیاشی، ہمیں تو ویزہ تک نہیں۔ اور اگر وہ باہر جا بھی رہے ہیں تو کون سا آپ کے لیے کچھ کر کر آئیں گے؟

سمجھ میں نہیں آتا کہ فلاں کی شادی، منگنی، ولیمہ، بیرونی ملک دوروں سے عوام کو کیا جو یہ خبر نشر کی جاتی ہے؟؟ جس کی بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ، تم لوگ کیوں اُس کی خبر بار بار نشر کرکے اُن کے قرب کو اور بڑھاتے ہو؟

”اس کو اب تب انصاف نہیں ملا۔ کیا انصاف ملے گا؟”۔آپ خود بتائیں کیا ہمارے ملک میں انصاف مل سکتا ہے ؟؟ پہلی بات تو یہ کہ انصاف وہاں ہو جہاں کوئی قانون ہو۔ او بھائی!! ہمارے ملک میں کہاں ہے قانون؟؟ کہیں نظر آیا کسی کو ؟؟

یہاں بیرونِ ملک رہنے والے لوگ ہمیشہ یہی بات کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کا جانے کیا بنے گا۔ خبرنامہ تو بہت گرم تھا آج۔

کب نہیں ہوتا گرم ؟؟

ہر خبر پر نظر۔ اور واقعی سب پر۔ حتی کہ کون کب باتھ روم آتا جاتا ہے۔ جیو تو ایسے۔ واقعی ایسے ہی جیو، مر کے مار کے۔

صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، کائیں کائیں ختم نہیں ہوتی۔

Thursday, March 22, 2012

بچپن کی کچھ یادیں ۔۔۔

بچپن میں اُلٹے کام کرنے پر والدہ سے مار پڑی، والد نے کبھی ہاتھ نہیں لگایا (چھوڑوایا بھی نہیں، شاید اس لیے کہ مار کا اثر نہ ہوتا)۔ پر بچے شرارت نہ کریں تو اور کیا کریں۔ ہم شرارت کرتے رہے اور مار کھاتے رہے۔

والدہ بازار شاپنگ کرنے گئی تھیں اور ہم تین (میں، چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی جو اُس وقت نو،چھ اور پانچ سال کے ہونگے)۔ کمرے میں قالین بچھا تھا اور ہم تینوں کھیل رہے تھے۔ اچانک پِلو فائٹنگ شروع ہوگئی۔ ایک دوسرے کو تکیے سے مارتے ، بھاگتے اور ہنستے۔ تکیے کی ایک سائیڈ سے سلائی کھلنا شروع ہوئی اور اس میں سے فوم کا ٹکڑا باہر نظر آنا شروع ہوگیا۔ میں نے اُسے اندر کرنا چاہا۔ اندر کرنے کے دوران سلائی اور کُھل گئی اور فوم زیادہ باہر آگیا۔ میں نے بجائے اسے اندر کرنے کے اُس کے چھوٹے چھوٹے پیس کرکے اُن دونوں پہ پھینکنا شروع کئے تو انھوں نے دیکھا دیکھی اُسی تکیے سے یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے کمرے میں فوم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پھیل گئے۔ :)

ہماری ایک عادت تھی کہ غلط کام کرنے کے بعد سو جایا کرتے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ کس نے کیا ہے :)۔ خیر امی واپس آئیں۔ کمرہ دیکھا اور پھر ہمیں وہاں سویا ہوا پایا۔ ہم تینوں کو اُٹھایا اور پوچھا یہ کس نے کیا ہے؟؟ ہم سے چُپ ۔۔ پھر چھوٹا بولا ” یہ بھائی نے کیا ہے” ۔۔ چھوٹے کے بولنے کی دیر تھی کہ بہن بولی ” جی امی یہ بھائی نے کیا ہے ” ۔۔ظاہر ہے کہ اب پیچھے میں ہی رہ گیا تھا تو ماننا پڑا کہ شروع میں نے کیا اور بعد میں یہ دونوں بھی شامل ہوئے۔ خیر کہاں سُنی جانی تھی۔ ایک ڈنڈا ہوا کرتا تھا امی کے پاس ۔۔۔ واہ ۔۔ کیا پٹائی ہوئی اُس سے اور اُس پہ ظلم یہ کہ قالین سے ٹکڑے نکالنا بہت مشکل تھا تو ہاتھوں سے ہم تینوں کو نکالنے کو کہا گیا ۔۔۔ ایک ڈنڈا پڑتا اور صفائی ہوتی ۔۔کتنے دن تک ہم تھوڑا تھوڑا کرکے قالین صاف کرتے اور جب تک صاف نا ہوا امی سے ڈانٹ پڑتی رہی۔

اِسی طرح ایک بار امی انڈوں کی ٹرے لے کر آئیں فریج میں رکھی اور خود سامنے والی آنٹی کے گھر چلی گئیں۔ ابوجی شام میں آیا کرتے تھے اور ہم تینوں گھر پہ موجود تھے۔ انہی دنوں ہمارے واشروم کا فلش سسٹم بھی خراب ہوا تھا اور پلمبر نے اُسے اتار کر واشروم سے باہر رکھا ہوا تھا۔ چھوٹی باہر گئی فریج کھولی انڈے دیکھے تو شرارت سوجھی کہ ہنڈیا بناتے ہیں۔ فلیش ٹینکی میں پانی بھرا اور ایک ایک کرکے تینوں نے انڈے اس ٹینکی میں ڈالنا شروع کئے۔(توڑ کر چھلکوں سمیت)۔۔۔۔ ٹرے کو ہم نے باہر ڈرم میں پھینکا اور ڈنڈے کو چمچ بنا کر ٹینکی میں پھیرتے رہے۔ حسبِ معمول یہ واردات کرنے کے بعد ہم تینوں سو گئے۔

امی آئیں اور انھوں نے ہمیں سویا ہوا پایا۔ ابھی رات کے لیے کھانا تیار نہیں تھا اور امی ، ابو کے آنے سے پہلے شام میں کھانا تیار کرتی تھیں۔ اُس دن ابو جلدی آگئے۔ خیر امی نے انڈے کوفتے بنانے کا پروگرام بنایا اور جب انڈوں کے لیے فریج کھولی تو انڈے غائب۔ سب جگہ تلاش کرنے کے باوجود نہ ملے تو ہمیں اُٹھا کہ انڈے کہاں ہیں اور ہم نے ہمیشہ کی طرح یہی کہا کہ معلوم نہیں۔ ہم تو سو رہے تھے۔ دل میں ڈر بھی تھا کہ اگر امی کو پتہ چل گیا تو خیر نہیں۔ ابو بازار سے کھانا لائے ، انڈوں کا معمہ حل نا ہوا۔ رات جب ابو واشروم جانے لگے تو ٹینکی کے پاس سے گزرتے وقت انہیں عجیب سی بُو آئی تو انھوں نے ٹینکی کا ڈھکن اُٹھا کر دیکھا تو پانی میں جھاگ ہی جھاگ اور انڈوں کے چھلکے تیر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے اور ادھر ابو نے امی کو بتایا کہ انڈے یہاں ہیں۔ پھر کیا تھا سونے سے پہلے وہ دھلائی ہوئی کہ آج تک یاد ہے۔ :)

Tuesday, March 20, 2012

کھودا پہاڑ اور نکلے چوہے ۔۔۔

بحرین دوبارہ آئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ دوبارہ اس لیے کہ پہلے والد یہاں نوکری کرتے تھے اور بچپن ہمارا یہیں گزرا ہے۔ سن 95ء میں ہماری واپسی ہوئی اور والد اپنی سروس ختم کرکے 03ء میں واپس گئے۔

اب میرا سولہ سال بعد یہاں آنا ہوا ہے۔ اچھا بھی لگتا اور دوسری طرف دُکھ بھی ہوتا ہے۔ آج کا بحرین اور سولہ سال پہلے کے بحرین میں بہت فرق آگیا ہے۔ اچھا اِس لیے کہ بحرین والوں نے بڑی ترقی کر لی ہے، کُھلی کھلی سڑکیں، اونچی عمارتیں، صاف صفائی اور ایسے ہی دیگر معاملات۔۔ اور دُکھ اِس لیے کہ یہاں کی عوام اپنے حکمران سے خوش نہیں اور وہ آئے دن کچھ نا کچھ کرتی رہتی ہے جس سے یہاں رہنے والوں کو تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے۔

آپ میں سے اکثر جو گلف میں رہتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ بحرین کی آبادی بارہ لاکھ سے کچھ اوپر ہے اور اس کا رقبہ 700 مربع کلومیڑ ہے۔ آبادی میں ساڑے پانچ لاکھ بحرین اور چھ لاکھ غیر ملکی ہیں۔ بحرین کی 71 فیصد آبادی مسلم اور باقی 21 فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اُس مسلم آبادی کا  70 فیصد شیعہ مسلم اور 30 فیصد سُنی مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ بادشاہ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ ، ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد آل خلیفہ اور وزیراعظم خلیفہ بن سلمان آل خلیفہ ہیں۔ خلیفہ فیملی 1797ء سے یہاں حکومت کر رہی ہے اور یہ سُنی حکمران ہیں۔ اِس سے پہلے یہاں ایرانی حکمرانوں کی حکومت رہی اور وہ سب شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔

آل خلیفہ فیملی دراصل کویت سے آئی تھی۔ 1802ء میں یہاں عمانی حکمران سے قبضہ کیا اور اپنے بارہ سالہ بیٹے کو بحرین کا امیر مقرر کیا۔1820ء میں آل خلیفہ قبیلے نے بحرین پر دوبارہ قبضہ کیا اور برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو اُس وقت خلیج فارس میں غالب فوجی طاقت تھی۔1932ء میں یہاں تیل دریافت ہوا اور 1935ء میں برطانیہ کی رائل نیوی نے اپنا بحری اڈا ایران سے بحرین منتقل کیا۔ اور اِن دونوں میں تعلقات اور بہتر اور گہرے ہونے لگے۔

1957ء میں ایرانی پارلیمنٹ نے ایک بِل پاس کیا جس میں بحرین کو ایران کا چودواں صوبہ قرار دیا گیا، ایران کوشش کرتا رہا کہ یہاں ریفرنڈم کروایا جائے۔ ایران اور برطانیہ کی درخواست پر اقوام متحدہ نے بحرین میں ایک سروے کروایا  جس میں علاقے کے سیاسی مستقبل کا تعین کریا جانا تھا۔ لوگوں کی ایک بھاری اکثریت نے ایک مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ریاست کی حمایت کی۔

90 کی دہائی میں یہاں شیعہ سنی فساد شروع ہوئے اور ہماری واپس جانے کی وجہ بھی یہی بنی۔ سن 95ء میں یہ فساد عروج پر پہنچے جسے بعد میں قابو پالیا گیا۔ پاکستانی آبادی یہاں اسی نوے ہزار کے قریب ہے اور اِن کے علادہ انڈین آبادی دو لاکھ، بنگلہ دیشی ڈیڑھ لاکھ، فلپائنی تیس ہزار کے لگ بھگ ہیں۔

پاکستانی آبادی کا زیادہ حصہ بحرین پولیس میں شامل ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ یہاں کی شیعہ عوام پاکستانیوں کا پسند نہیں کرتی۔ یہ ان فساد کرنے والوں کو پکڑتے ہیں اور ان پر مقدمہ چلتا ہے اور پھر اُن کے گھر والے پاکستانیوں پر لعن تعن کرتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں۔ پاکستانیوں کو بادشاہ کی کافی سپورٹ رہی ہے بلکہ بادشاہ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ کے والد شیخ عیسٰی بن سلمان آل خلیفہ پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ خیر یہ تو گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔

فروری 2011ء کی بغاوت جو اُٹھی تو اُس نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا پر سعودی اور اماراتی افواج نے یہاں مداخلت کرکے اُس بغاوت کو ختم کیا۔

پہلے یہاں عرب پاکستانی آبادی کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ پر اب ایک آنکھ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ پاکستانیوں سے ڈرتے بھی تھے کہ یہ سخت جان قوم ہے اور ان کی آپس میں کم ہی لڑائی ہوا کرتی تھی۔ پر فروری 2011ء کے بعد سے سب بدل گیا ہے۔ تب سے اب تک بہت سے پاکستانیوں پر حملہ کیا گیا ہے کئی تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو اتنا مارا گیا ہے کہ وہ مستقل بستر سے جا لگے ہیں۔ بحرینی پولیس میں پاکستانیوں کو اب بھی شامل کیا جاتا ہے بلکہ ان کی تعداد پہلے سے زیادہ کر دی گئی ہے۔ نا اُن کو کوئی اسلحہ دیا گیا ہے اور نا ہی اُن کو مارنے کی اجازت ہے۔ میں تو اُنھیں مسکین پولیس کہتا ہوں کہ بےچارے ایک ڈنڈہ اور ایک شلیڈ کے ساتھ ان عربوں سے مقابلہ کرنے جاتے ہیں اور کبھی یہ دوڑ کر واپس آتے ہیں تو کبھی عربوں کو بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پچھلے ایک سال سے روزانہ بلاناغہ کھیلا جا رہا ہے۔ پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ اور انھیں بحرینی نیشنیلٹی کا لالچ دیا جاتا ہے اور یہ بےچارے اس لالچ میں آجاتے ہیں۔

ایک پاکستانی سے میری بات ہوئی تو کہتا ہے اس میں سب سے بڑا قصور ہماری پاکستانی حکومت کا ہے۔ میں نے کہا وہ کیوں ؟؟ تو بولا یہ عربی ہم سے ڈرتے تھے، ہم سے لڑائی نہیں کرتے تھے اسی ڈر سے کہ یہ ماریں گے، پر اب یہ پاکستان کی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں اور وہاں کے سیاسی حالات، آئے دن کے خودکش حملے، لوٹ مار، چوری، کرپشن ، روز روز کی بدلتی حکومت وغیرہ وغیرہ تو اِن کے دل سے وہ خوف ختم ہونا شروع ہوگیا کہ ہم تو اس قوم کو بہت بڑی توپ سمجھتے تھے اور یہ تو چوہے نکلے، ان کے اپنے گھر میں سکون نہیں تو یہاں ہمارا سکون کیوں برباد کر رہے ہیں۔ اور یہ خوف اب ختم ہوگیا ہے۔

آپ یہاں اکیلے شلوار قمیض پہن کر باہر نہیں جا سکتے ڈر ہوتا ہے کہ آپ کی پہچان ہوجائے گی اور کسی دن محلے کے آوارہ لڑکے آپ کو پکڑ کے ماریں گے۔ بہت سی پاکستانی فیملیز جو  یہاں 20 یا 30 سال سے مقیم تھیں چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور اِن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جو پاکستانی ان کے علاقوں میں رہتے تھے وہ سب چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں۔

فروری 2012ء میں حکومت کو بغاوت کا پھر خدشہ تھا تو اس بار پہلے سے سب تیاری کر رکھی تھی اور حکومت اس میں کامیاب بھی ہوئی، کوئی خون خرابہ نہیں ہوا اور سب ٹھیک ہی رہا۔ پر اب بھی ان کے چند مخصوص علاقے ہیں جہاں چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پہلے صرف پاکستانیوں کو نشانہ بناتے تھے، اب کوئی بھی ایشیائی ہتھے چڑھ جائے تو ”پینجا” لگا دیتے ہیں۔ بظاہر سب اچھا لگتا ہے، اور ایسا ہی ہے۔ سب اچھا ہے۔ میں جہاں رہ رہا ہوں وہاں ایسا کچھ نہیں کوئی لڑائی نہیں کوئی جلوس نہیں امن اور شانتی ہے۔ حکومت کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ اور ایشیائی آبادی بھی اس وجہ سے خوش ہے کہ شہروں میں سکون ہے۔ اب اپریل میں فارمولہ ون ریس ہونی ہے اور سب انٹرنیشل میڈیا یہاں آئے گا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ یہ بغاوت اس وقت پھر سر اٹھائے گی۔

میرے مطابق یہاں کے لوگ غلط سوچ رہے ہیں، جیسا یہ ملک چلنا چایئے ویسا ہی چل رہا ہے۔ کرپشن نہیں لوٹ مار نہیں سب کام وقت پہ بلکہ وقت سے پہلے۔ خلیفہ آئے دن چھوٹی موٹی تقریبات کا انعقاد کرتا رہتا ہے، جس سے یہاں کے رہنے والوں کا دل لگا رہے، گھر خود حکومت بنا کر دیتی ہے، جو کام نہیں کرتا اس کے لیے وضیفہ ہے سرکاری نوکریاں ہیں، سُنی آبادی خوش ہے پر شیعہ آبادی جمہوریت مانگتی ہے۔ انھوں نے شاید پاکستان کی جمہوریت نہیں دیکھی :)۔ دیکھ لیں تو اچھا ہے۔

Sunday, March 18, 2012

بندے کے پُتر بنو ۔۔۔

میں آج کل جس بندے کے ساتھ فلیٹ شئیر کر رہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ وہ یہ پڑھے اور پھر ہماری لڑائی ہو ، یاں وہ میرا سر پھاڑے یا میں اُس کا۔ فیصلہ ہو ہی جائے۔ اور اگر نہیں تو ”بندے کے پُتروں” کی طرح رہے۔

شئیرنگ روم ہو یا فلیٹ، اِس کے مسائل کیا ہوتے ہیں یہ یہاں آ کر معلوم ہو رہا ہے۔ اور وہ بھی تب جب آپ نہ فلیٹ چھوڑ سکتے ہو اور نہ روم کیونکہ کمپنی رہائش ایک بار ہی دیتی ہے۔ آپ کمپلین تو کر سکتے ہیں پر اُس پر سوائے بہانوں کے کچھ نہیں ملتا۔ آپ جتنی مرضی کوشش کر لو کہ کوئی بات نہ ہو پھر بھی ٹاکرا تو ہو کر ہی رہتا ہے۔

آپ میں سے بہت سے افراد بیرونِ ملک رہ رہے ہیں اور اکثریت اُن کی روم یا فلیٹ شئیر کرتی ہے۔ یہاں تو یہ حال بھی دیکھا ہے کہ ایک روم میں آٹھ آٹھ اور ” بنگالی گلی” میں تو روم میں دس دس افراد رہ رہے ہیں۔ میں تو پھر ایک فلیٹ شئیر کر رہا ہوں اور فلیٹ میں ہم دو لوگ ہی رہتے ہیں۔ میرا حال ایسا ہے تو اُن بےچاروں کا تو اللہ ہی حافظ۔

میرا فلیٹ پارٹنر میرا سینئر بھی ہے، عُمر میں بھی تو عہدے میں بھی۔ چلو سینئر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ کل کو ہم نے بھی ہونا ہے تو اس میں کیا ہے۔ موصوف پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہیں یاں اُن کی اماں کیا کھلایا کرتی تھیں جو ایسا سپوت پیدا کیا۔ یاں پھر یہ میرے کوئی گناہ ہیں جن کی سزا مجھے مل رہی ہے۔بہت بار باتوں باتوں میں سمجھایا ( حالانکہ وہ بڑا ہے اور سمجھانا اُسے مجھے چایئے)، پر کوئی فائدہ نہیں۔ وہی کتے کی دُم اور ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔

شروع شروع میں تو اچھے سے رہا کام وام بھی کر لیا کرتا تھا، پر اتنا ہڈحرام نکلے گا یہ اُمید نہیں تھی۔ ہمارے بڑے کہتے ہیں ” بڑوں کی عزت کرو تو چھوٹے بھی دیکھا دیکھی سیکھ جاتے ہیں عزت کرنا” اور بڑوں کو کہا کرتے تھے ”اپنی عزت خوش کرواو اچھے کام کرکے تاکہ چھوٹے تمھاری عزت کریں”۔ پر اِس بندے کو شاید یہ بات نہ تو کسی نے بتائی ہے اور اگر بتائی بھی ہوگی تو اُس نے ایک کان سے سُنی ہوگی اور ۔۔۔

آفس سے ہمیشہ لیٹ، پہلے تو مجھے کہا کرتا تھا یار دیر سے جایا کرو کون سا آگ بجانا ہوتی ہے ہم نے۔ دفتر سے آرڈر ہوئے کہ جلدی آیا کریں ، میں نے جلدی جانا شروع کیا تو موصوف کو اخلاقا اُٹھا بھی دیا کرتا تھا کہ ” ٹائم ہوگیا ہے، اُٹھ جائیں”۔ ایک بار، دو بار، تین بار، چار بار جتنی بار بھی آواز دی یہی جواب آیا ” اُٹھتا ہوں”۔ میں دفتر آیا، یہ اُسی روٹین پر۔ میں نے اُٹھانا چھوڑا تو وہ گلہ کہ اب اُٹھاتے نہیں ہو۔ باہر جانا ہے تو ”چلو یار باہر چلیں” اور جس کام سے چلیں گے وہ آپ ”مالٹا بےچارہ” میں پڑھ چلے ہونگے۔(اور اگر نہیں پڑھا تو کوئی بات نہیں، یہ پوسٹ بھی نہ پڑھیں)۔

ابھی جمعرات کی ہی بات لے لیں۔ بینک سے میں نے پیسے نکلوانے تھے، تبھی موصوف کو یاد آیا کہ اُس نے پیسے جمعہ کروانے ہیں۔ ساتھ چلتے ہیں۔میں نے دل میں سوچا یااللہ خیر۔پیسے جمع اور نکلوانے میں کتنی دیر لگتی ہوگی ؟؟ دس منٹ، پندہ ؟؟ اگر آپ کا یہ جواب ہے تو آپ غلط ہیں۔

آدھ گھنٹہ۔ اور وہ بھی جب باہر نکلے اور پانچ منٹ واک کرکے آگے آ چکے تو دوسرا کام یاد آیا ۔

 ” او یار گھر پیسے بھیجنے ہیں”۔

 تو بھیج بھائی، میری ہاتھ بھجوانے ہیں کیا ؟؟

تم ایسا کرو تمھارے پاس پیسے ہیں نا ابھی تم وہ مجھے دے دو اور تھوڑے اور نکلوا لو میں نے تو اب جمع کروا دیئے ہیں (اس لیے جمع کروانے کہ بینک سٹیٹمنٹ اچھی بن جائے) تو کل لے لینا مجھ سے۔ ایک بار میں نے سوچا۔ پھر اچانک اُسے خیال آیا۔” نہیں یار رہنے دو، شام میں آکر نکلوا لیں گے”۔ (اچھااااااااااااااااااااااا) پھر دوسرے ہی لمحے نہیں یار ابھی بھجوا دیتے ہیں شام میں کہاں آنا ہوگا۔

پیسے نکلوانے یو بی ایل گئے تو خالم خالی۔ بس عملہ بیٹھا تھا، حیرت ہوئی کہ یہاں تو بڑا پُرسکون ماحول ہے۔ خیر عملہ پاکستانی تھا تو آپ کو جلدی فارغ تھوڑی نا کرنا تھا اُنھوں نے۔ آدھ گھنٹہ انھوں نے بھی لگا دیا۔ اب نئی بات شروع ” یار انہوں نے ریٹ کم لگایا ہے، واپسی پر ایچ بی ایل سے ریٹ پوچھ کر جاتے ہیں ”۔میں نے کہا ” یو گو، آئی وونٹ کم”۔ تو منہ بنا لیا اور یہ جا وہ جا۔ میں نے شکر کیا کہ جان چھوٹی۔

اُس بندے نے سارا دن فلیٹ پہنچ کر میری کسی بات کا جواب نا دیا اور مُنہ بنا کر کمرے میں بیٹھا رہا۔ او بھائی؟؟؟ مجھے سمجھ کیا رکھا ہے ؟؟ نوکر ؟؟ مجال ہے تو اُس نے کبھی فلیٹ کی صفائی کی ہو، فلیٹ کی چھوڑیں اپنے کمرے کی صفائی وہ تو کرنی چائیے نا۔ پر نہیں۔ کہتے ہیں ” یار کیا کرنی ہے صفائی کرکے”۔ اور بھائی صفائی نہیں کرنی تو گند بھی نہ ڈالا کرو۔ اور اگر ڈالتے ہو تو صاف بھی کر لیا کرو۔برتن سنک میں پڑے ہیں تو پڑے رہیں، شاید ہی کبھی دھوئے ہوں۔ کھانا خود بنانا نہیں آتا اور جن کبھی بنا لیں تو کبھی نمک کم تو کبھی مرچ تیز۔ میں تو کھاتا نہیں تھا کھانا پر مجبورا ایک نوالہ ضرور چیک کرواتا۔ جسے کھا کر عجیب سی کیفیت ہوتی۔ اور پھر اُسی کھانے کی جب تعریف کی جاتی کہ ”یارررررر۔۔ کیا زبردست کھانا بنایا ہے میں نے”۔ اچھا یہ زبردست تھا؟؟؟ زبیدہ آپا تک کوئی یہ بات پہنچا دے کہ اُن سے اچھا کھانا بھی کوئی بنا رہا ہے۔ اور پھر اگلے دن جتنا کھانا تھا سب کچرے میں۔ کیوں پھینک رہے ہیں ؟؟ ”یار ایک چیز روز روز نہیں کھائی جاتی”۔ اچھاااااااااااااااااااااااااااااااااااااا

تو بھائی پکاتے ہو تو کھایا تو کرو جب اتنی اچھی بنی ہے اور اللہ کے رزق کو ضائع تو نہ کیا کرو۔

مُنہ زبانی تو بہت بار کہہ چکا، اب ہاتھ زبانی بات ہوگی۔ اللہ مجھے صحت اور تندرستی عطا فرمائے۔آمین۔

 

 

Thursday, March 15, 2012

کوئی توپ چیز نہیں ۔۔۔

بلاگ شروع کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میری اُردو بہت اچھی ہے اور موٹے موٹے الفاظ میری سمجھ میں آتے ہیں یا میں کوئی بہت بڑی توپ ہوں ( چھوٹی توپ ضرور ہوں )۔

اُردو فورمز پر کسی زمانے میں بہت فعال رہا ہوں۔(بہت فعال سے مُراد ”بہت فعال” ہی ہے )

دن رات نام (یوزر نیم) یہ سوچ کر ہرگز نہیں رکھا گیا تھا کہ دن رات صرف نیٹ کی ہی زینت بن کے بیٹھا رہوں، بلکہ اِس کے پیچھے مقصد کوئی بھی نہیں تھا۔ ہماری ایک کزن صبح شام کے نام سے کسی زمانے میں لکھا کرتی تھیں اُن کی دیکھا دیکھی اور ملتا جلتا نام ”دن رات” ہی ذہن میں آیا اور رکھ لیا۔ یہ اور بات کہ پھر میرا آنا نیٹ پر ایسا ہوا کہ ”دن رات” یہیں فورمز پر گزر جاتے۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ کوئی کام وام نہیں تھا اِسے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ زمانہِ طالب علمی تھا اور پڑھائی سے انٹر کے بعد کوئی خاص محبت بھی نہیں تھی۔ خیر ۔۔۔۔ مجھے اِس بات کا طعنہ بھی فورمز پہ کافی ممبران مارتے تھے کہ یہ تو یہیں بیٹھا رہتا ہے، جاسوس ہے، سب پر نظر رکھتا ہے، اپنی پوسٹس بڑھانے کے چکروں میں رہتا ہے اور ناجانے کیا کیا۔ حیرت کی بات یہ کہ لوگ اِس بات پہ بھی حسد محسوس کرتے تھے کہ یہ پوسٹ زیادہ کرتا ہے۔

ایک فورم چھوڑا دوسرا فورم، دوسرا فورم چھوڑا تو تیسرا اور سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ کچھ نئے شاعر جن کے اپنے فورم تھے وہ دعوت دیتے رہے اور میں شامل ہوتا رہا۔ اور پھر یہ سلسلہ کافی عرصہ تک بند رہا۔ مصروفیات بہت بڑھ گئیں اور اُردو لکھنے اور پڑھنے سےدلچسپی ختم ہونا شروع ہوگئی۔

میں نے اوپر ذکر کیا کہ میری اُردو نا تو اچھی ہے اور نا موٹے اور بھاری بھرکم الفاظ میری سمجھ میں آتے ہیں اور شاید ہی کبھی آئیں گے۔ بلاگز پر اکثر لکھاری بہت سُلجھی اور ہائی فائی اُردو لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔

اِس بلاگ پر بہت سادہ اور آسان اُردو میں میری طرف سے لکھا جائے گا اور کبھی کبھار گفتگو کے درمیان ایسے الفاظ بھی شامل ہوں گے جو میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتا ہوں ( گالی گلوچ مطلب ہرگز نہیں، اُس سے میرا دور دور تک کوئی لنک نہیں)۔

قارئین سے التماس ہے کہ اگر کوئی مخلص مشورہ ہو تو ضرور دیں (ورنہ اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھیں :) )۔

Wednesday, March 14, 2012

اپنے کام سے کام

یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے۔ ایک بندہ اگر کوئی کام کرتا ہے(کام سے مُراد اچھا یا بُرا نہیں، کوئی بھی ایسا کام جس سے کسی کو نا تو فائدہ کو اور نا نقصان) اور کرنے والے بھی اِس چیز سے واقف نا ہو کہ جو وہ کر رہا ہے کسی کو فائدہ پہنچا رہا ہے یا نقصان، بس وہ من موجی سا بندہ ہو اور کچھ کام کرے۔

مثلا:

میں اپنا موبائل ٹی وی ٹرالی کے پاس رکھتا ہوں۔

اب یہ ایک ایسا کام ہے جو کسی کو نا نقصان پہنچا رہا ہےاور نا فائدہ۔ بھلا ایک موبائل فون کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خیر۔ کوئی جناب آئے اور اسے وہاں سے اُٹھا کر کہیں اور رکھ دے، ایسی جگہ جہاں (جس کا موبائل ہے) وہ تلاش کرنے پر مجبور ہو جائے کہ ابھی تو یہاں رکھا تھا کہاں چلا گیا۔ اور جب کسی بندے سے(جس نے موبائل وہاں سے اُٹھا کر کہیں اور رکھا ہو) پوچھا جائے کہ آپ نے میرا موبائل تو نہیں دیکھا؟ اور جواب ملے کہ میں نے وہاں سے اُٹھا کر کسی اور جگہ رکھ دیا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ موبائل کس کا تھا؟ (ظاہر ہے میرا)

دوسری بات یہ : آپ اُسے وہاں سے کیوں اُٹھا رہے ہیں ؟

تیسری بات یہ :  اگر آپ اُٹھا بھی رہے ہیں تو بتا کر اُٹھتے کہ میں اسے فلاں جگہ رکھ رہا ہوں۔

تو پہلے سوال کا جواب تو آپ کو معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔ دوسری بات کا جواب اگر اِس طرح سے ملے کہ وہ موبائل وہاں پڑا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا، یا ”اپنی چیزیں اپنے پاس رکھا کرو”۔ اور تیسری بات کہ اگر بتا کر اُٹھاتے تو اچھی بات ہوتی کہ بھائی آپ کا موبائل میں اُٹھا کر فلاں جگہ رکھ رہا ہوں۔ مینرز بھی تو یہی ہوتے ہیں۔

ب رہی اصل مُدے کی بات۔ بھائی آپ کو موبائل وہاں پڑا اچھا کیوں نہیں لگ رہا تھا؟ اور میں اپنی چیزوں کو اپنے پاس رکھا کروں ؟؟


بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ آیا اِسے موبائل سے تکلیف ہے یاں مجھ سے ؟


اب آپ ہی باتیں موبائل فون کہیں رکھا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے اُسے وہیں رہنے دیں گے۔ جس بندے کا ہے وہ خود آ کر اُٹھا لے گا۔


جو بندہ بھی کوئی کام کرتا ہے وہ اس کا اپنا فعل اور اس کے اچھے بُرے کا مالک ہوتا ہے۔ خاممخواہ کی بحث لڑائی یا جھگڑا کرنے کا فائدہ ؟ دا پوائنٹ اِز کسی سے بُرا عمل کرو گے تو مخالف بھی اُس کے ساتھ بُرا عمل کرے گا، اچھی فعل کروگے تو اگلا بندہ بھی آپ کو اچھے فعل سے گریٹ کرے گا۔


خدارا کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نا کریں، اور اگر کریں تو پھر یہ توقع نا رکھیں کہ مخالف آپ کی بات کو سُنے ۔ آپ کسی انسان کو بُرا کام کرنے سے منع تو کر سکتے ہیں پر اُس کر زبردستی عمل نہیں کروا سکتے۔اور اچھا کام تو دُنیا میں بہت کام لوگ ہیں تو کرتے ہیں اور اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ضرور کریں۔اور اپنی رائے کا اظہار ضرور کیں پر اچھے لب و لہجے میں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرتے ہوئے زندگی گزاریں.

Tuesday, March 13, 2012

ملباری

ملباری قوم پتا نہیں کیا کھاتی ہے جو ہر چیز میں کاروبار اور پیسہ ڈھونڈ لیتی ہے۔

چند مثلیں پیش کروں۔

کل ایک ملباری ہوٹل میں کھانا کھانے گیا۔ ہمیشہ کی طرح ویٹر نے وہی ایک مینو سامنے رکھا اور شروع ہوگیا۔” چکن چُکا، مٹن چُکا، مکن کری، مٹن کری، بیف فرائی، انڈہ فرائی، انڈہ بھُرجی، بریانی، سبزی دال”۔ اور میں نے ہمیشہ کی طرح کہا ”وہی”۔

”چپاتی کھائےگا کہ پروٹھا؟”۔ اور میں نے کہا ”پروٹھا”۔

چند لمحوں واپس آیا تو بولا ” باروچی نہیں ہے۔ باہر گیا ہے۔ کچھ اور مانگتا”۔ میں نے اور تو کچھ کھانا نہیں تھا۔ ایک چیز تو وہاں اچھی ملتی تھی وہ ہی نہیں تھی۔ تو میں نے کہا ” چلو چکن چُکا لے آؤ”۔

وہ ابھی جانے والا تھا تو میرے کولیگ نے کہا ”میں نے تو وہی کھانا ہے جو پہلے آرڈر کیا تھا۔ جب باروچی آئے گا تو آ جائیں گے”۔ میں نے بھی حامی بھری۔ ملباری کو یہ محسوس ہوا کہ گاہک نکلنے والے ہیں(حالانکہ ایسا ارادہ نہیں تھا) اور واپس نہیں آئیں گے اور پیسے کہیں اور نکل جائیں گے۔ فورا بولا ” بیٹھو میں بنا کر لاتا ہے”۔

ہم اُس کو جاتے دیکھ رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے کہ ملباری نے جانے نہیں دیا۔ پانچ سات منٹ بعد آیا اور وہی آرڈر جو پہلے دیا تھا لے کر آیا۔(حالانکہ باورچی موجود نہیں تھا)۔ سیانہ کہیں کا۔ خیر ہم نے کھانا شروع کیا۔ جب سے یہاں آیا ہوں ہمیشہ یہ تجسس رہا ہے کہ یہ ملباری آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں اور میں اپنے ایک ملباری کولیگ سے تھوڑے بہت ملباری الفاظ سیکھ بھی رہا ہوں۔ خیر کھانا ختم ہوا میں نے حساب لگایا کہ کتنے پیسے بنے ہوں گے۔

” اُن، رنڈ، مُون، ناڑ، انج، آڑ، ییڑ ۔۔۔۔ ” میں بڑبڑا رہا ہوں اور ویٹر کہیں سُن رہا تھا تو ہنسنا شروع ہوگیا۔ کہ میری زبان بولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے شروع میں بتایا نا کہ ملباری پیسے نہیں جانے دیتے کہیں اور اگر کہیں سے سمجھتے ہیں کہ کمائی کی جا سکتی ہے تو ضرور کرتے ہیں۔

ویٹر بولا: ” تم دونوں کو ملباری سکھائے گا ہم”۔

میں نے کہا یہ تو اچھی بات ہے۔ بولا :” میرے کو تم دس دینار دینا مانگتا میں تم کو اچھے سے سیکھائے گا”۔

او تیری خیر۔

ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھنا شروع، اور ہنس ہنس کے بُرا حال۔ کر دی اس نے پھر ٹپیکل ملباریوں والی بات۔ میں نے کہا بھائی تو پیسے لے کہ سیکھائے گا، ہم سیکھے گا ہی نہیں۔ ویسے سیکھانی ہے تو بول۔ نہیں مانا۔ اور دانت نکال کے کہنے لگا۔ ” کیا صاب دس دینار ہی تو ہے”۔

ہم نے کاؤنٹر ہر پیسے دیئے اور باہر نکل آئے اور اُس کی بات کرتے رہے کافی دیر کے ملباری پیسہ نہ جانے دیتے ہیں اور کمانے کے اِن کے پاس بہت طریقے ہیں۔ اور آخر میں بتاتا چلوں۔

ہم نے ”انڈہ بھرجی” کا آرڈر دیا تھا۔

Monday, March 12, 2012

مالٹا بےچارہ۔۔۔

کچھ لوگ بہت عجیب و غریب طبعیت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہمی اتنے کے چھوٹی چھوٹی بات کو دل و دماغ پر سوار کر لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس بندے کو کوئی تمغہ دیا جانا چاہئے۔ آج کل کچھ ایسا میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ وقت گزر رہا ہے جو انتہائی وہمی ہے۔


سارا دن گھر میں پلان بنایا جائے گا کہ آج بازار سے کیا کیا لایا جانا ہے۔ پوری لیسٹ تیار کی جائے گی۔ فُل تیار ہو کر ( جیسے رشتہ لینے جا رہا ہو) کلون لگا کر (جیسے کبھی نہایا نہ ہو) نکلے گا اور پھر جس کام کے لیے جانا تھا وہاں نہیں جائے گا۔ رستے میں کوئی فروٹ والا ملا اُس سے دام پوچھ لیا۔ پانچ دس منٹ صرف اسی میں لگا دیے کہ مالٹا پہلے تم اتنے پیسے میں چار درجن دیتے تھے آج تین درجن کیوں؟ اور پھر یہ نہیں کہ ایک ریڑی سے پوچھیں۔ مارکیٹ جاتے جتنے فروٹ والے ملیں اُن سے مالٹے کے دام پوچھے جائیں گے۔ مالٹا بےچارہ بھی سوچتا ہوگا کہ یہ کون مجھے خریدنا چاہ رہا ہے۔اور دعا کرتا ہوگا کہ خدارا جھوٹ ہی ہو جائے کہ یہ مجھے آج خریدے۔مارکیٹ پہنچتے پہنچتے اتنے بندوں سے دام پوچھ لیں گے کہ آخر میں فیصلہ ہوگا کہ فروٹ مارکیٹ بھی تو وہیں پاس میں ہی ہے۔ سودا سلف لے کر واپسی پر وہاں سے ہوتے چلیں گے۔


مارکیٹ پہنچنے پر سب سے پہلے جوس لیں گے کہ گھر سے یہان پہچنتے بہت پیاس لگ رہی ہے۔ پھر لیسٹ نکالی جائے گی اور مختلف سیکشنز کی طرف اپنی کارٹ کو لے کر گھومنے نکل جائیں گے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ورلڈ ٹور پر آئے ہیں۔ جو کام ایک گھنٹے میں کیا جا سکتا ہے وہ چھ گھنٹے میں بھی مکمل نہیں ہوگا۔ایک ایک چیز کو چیک کریں گے۔ ایکسپائیر تو نہیں ہوگئی۔ ابھی کتنے دن باقی ہیں، یہ اچھا برینڈ نہیں ہے۔ اوہو اس برینڈ کی قیمت تو بہت زیادہ ہے۔ ابھی دو دن پہلے تو اتنی تھی۔ چلو کوئی اور دیکھ لیتے ہیں۔ اور وہاں موجود ایسی چیز لیں گے جو نا تو اِن ہوتی ہے اور شاید مارکیٹ میں سب سے ”تھکڑ” بھی ۔ لیسٹ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔(نام لینے دیں تو نا)۔


لیسٹ میں لکھی کافی چیزیں پین سے کاٹ دی جاتی ہیں کہ اُن کی قیمت یا کوالٹی اُن کے معیار کے مطابق نہیں اُترتی۔ کافی سے مراد تقریبا ساری ہی ہوتا ہے کیونکہ موصوف کو وہم ہو جائے کہ یہ چیر صحیح نہیں تو پھر وہ صحیح بھی ہو تو خراب ہوجاتی ہے۔ اللہ اللہ کر کے مارکیٹ سے شاپنگ پانچ،چھ گھنٹے میں ختم ہوجاتی ہے۔ پھر رُخ ہوتا ہے فروٹ مارکیٹ کا۔


مالٹا بےچارہ۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب اس بےچارے کی سنی نہیں جاتی۔ فروٹ مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی سبزی اور فروٹ کے دام پوچھے جاتے ہیں۔ یہ کتنے کا ہے وہ کتنی کی ہے، اور پھر وہی بحث شروع۔ مالٹے کے دام پوچھے تو ریڑی والے کے بتائے دام سے زیادہ۔ اس بےچارے کو وہاں سنا دیتے ہیں کہ ہمارے محلے میں تو اتنے کے دے رہا تھا، یہ سوچ کر یہاں آئے تھے کہ سستی اور اچھی چیز مل جائے گی پر لگتا ہے اُسی سے جا کر خریدنے پڑیں گے۔مزا تب آتا ہے جب دکاندار کہتا ہے بھائی دماغ خراب نہ کر آگے چلتا ہو۔ اتنا ہی سیانہ تھا تو وہیں سے خرید لیتا یہاں کیا ”آم لینے آیا ہے”۔ پھر جناب کا منہ ایسا بنتا ہے کہ بَڑ بَڑ شروع۔ خیر فروٹ مارکیٹ میں کوئی ایسا بندہ نہیں جو فروٹ ان کی قیمت اور معیار کے مطابق دے۔ ہاتھ میں سودا پکڑے ساری فروت مارکیٹ گھوم کر جب تھک جائیں گے تو کہیں گے۔” مالٹے بلڈنگ کے نیچھے کھڑے ریڑی والے سے ہی لیں گے۔ روز کے گاہک ہیں اس کے، کچھ دید لحاظ تو کرتا ہے نا”۔دل تو کرتا ہے کہ وہاں موجود سب فروٹ فروشوں سے اس کی پٹائی لگواؤں۔


جب تک گھر پہچتے ہیں راستے میں کسی بھی ایسی دکان میں گھس جائیں گے اور بلاوجہ کوئی بھی چیز اٹھا کر اس کے دام ضرور چیک کریں گے۔ لینا شینا کچھ نہیں ہوگا بس ایک وہم جو کہ پورا نہیں ہو رہا تھا پورا کیا جاتا ہے۔ بلڈنگ کے نیچے کھڑے بُندو سے مالٹے لیں گے اور اس بار کوئی بارگیننگ نہیں کریں گے۔ بس اتنا کہیں گے ”یار ہم تو تمھارے پُرانے گاہک ہیں” وہ بےچارہ ایک نظر دیکھتا ہے اور انہیں وہاں سے بھگانے کے لیے دو مالٹے زیادہ ڈال دیتا ہے۔ یہ اسی میں خوش ہیں کہ مارکیٹ سے دو مالٹے زیادہ لے کر آ رہا ہوں۔ میں ہر بار یہی سوچتا ہوں کہ اس بار ان موصوف کے ساتھ مارکیٹ کا رُخ نہیں کرنا پر ہر بار کوئی نا کوئی بہانا بنا کر ساتھ لے کر جائیں گے۔ اور یہ سب لکھنے کا مقصد یہی تھی کہ بائی فیس تو شاید میں اپنے غصے کا اظہار نہ کر سکوں پر اگر وہ اس کو پڑھیں تو کچھ تو شرم محسوس کریں۔ پر مجھے پتا ہے ایسا ہونے والا نہیں۔ ابھی ایسی بہت سی وہمی باتیں ہیں جو آپ سے کے ساتھ شئیر کرتا باقی ہیں۔ اللہ مجھے صحت اور ہمت دے۔ آمین۔

Wednesday, March 7, 2012

جنگل میں آ گیا

اب کبھی وہاں سے گزر ہو تو اُسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی جنگل میں آ گیا ہے۔ سنسان۔ کوئی چوں چاں تک نہیں۔ مزے کی بات اُس جنگل میں گیدڑ بہت تھے۔ اور ان کا سردار بندر اور وزیر لومڑی۔ بہت چالاک شاطر مکار۔کب کیا کریں گے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ اُسے بہت ہوشیار رہنا پڑتا تھا۔ لومڑی یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس کے منصوبوں سے کوئی واقف نہیں ہوتا۔ اور اب بھی شاید وہ یہی سمجھی بیٹھی ہے پر اسے کیا معلوم کہ اب بھی اس پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ زخمی شیر بہت خطرناک ہوجاتا ہے۔ اور وہ بھی جب زخم گہرا ہو۔

Tuesday, March 6, 2012

وہاں کیا کیا ہوا

ایٹ لِیسٹ وہ ڈبل فیسڈ نہیں تھا۔ وہاں بہت سے لوگ ”دونمبر” تھے۔ مالک بھی اور اس کے نوکر بھی۔ سیاسی بیان بہت چلتے تھے۔ اگر کہا جائے تو اُسے سب کی خبر تھی۔ یہ بھی کہ وہ اُسکے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔ کوئی اتنی بڑی ڈیل بھی نہیں تھی۔ کون کب آتا، کیا کرتا، کس سے بات کرتا، کس بارے بات کرتا، کہیں نا کہیں سے علم ہو ہی جاتا تھا۔ آخر وہ بھی”دن رات” تھا۔

ایک چیز جو اُس نے وہاں جانی اور اس کو پلے سے باندھ لی وہ یہ کہ مخالف جنس کی بات کو لوگ زیادہ غور سے سنتے اور اس پر عمل کرتے ۔ چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نا ہو۔ اور یہ بھی کہ وہاں کوئی بھروسے کے قابل نہیں۔ سب سیاسی گیم کھیل رہے تھے۔ کھیلنی بھی چاہیے۔ یوں کہہ لیں کہ کندھا اُس کا ہوتا اور بندوق کوئی اور چلاتا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔وہ اتنا ”کاکا” بھی نہیں تھا۔

اُسنے یہ بھی بتایا کہ وہاں زیادہ لڑکے فلرٹی تھے۔ فلرٹ تو اُس نے بھی کیا تھا۔ پر ایک کے ساتھ اور وہ بھی زیادہ دن نہیں۔ شاید اُسے جس رسپانس کی توقع تھی وہ ملی نہیں۔ (دل ٹوٹ گیا تھا بےچارے کا)۔ پر اُس نے کبھی شو نہیں کروایا۔ نا اُس نے ذکر کیا کسی سے اور نا خود کبھی نام لیا اُس کا۔ راستہ بدل لیتا تھا۔ سخت مزاج تو وہ شروع دن سے تھا۔اور سب کو اُس کی یہی بات بھی بُری لگتی تھی۔ اور یہ بھی کہ غصہ بہت کرتا ہے۔اُس کا کہنا تھا کہ غلط کام ہوتا دیکھ کوئی بھی بھڑک اٹھے گا۔ تو اِس میں غلط کیا تھا اگر وہ ایسا کرتا تھا۔ (جاری)

Monday, March 5, 2012

خوش آمدید !! خوش آمدید !!

خوش آمدید !! خوش آمدید !!

بہت عرصہ بعد ملے دن رات ۔۔ کیسے ہو ؟ کہاں ہوتے ہو ؟؟ کیسی گزر رہی ہے ؟؟ خوش ہو؟؟ بہت عرصہ سے تلاش تھی تمھاری ۔۔ مجھے بھی اور بہت سے تمھارے ”چاہنےوالوں” کو بھی ۔۔ (:
چھ سالوں میں کچھ سیکھا کہ نہیں؟ یاں اب بھی ویسے ہی ہو ؟ کیسے ہیں تمھارے دوست یار ؟ کوئی خیر خبر اُن کی؟ بہت خوشی ہو رہی ہے تمھیں دوبارہ ” ان ایکشن ” دیکھ کر (: ۔

تھمارا دوست۔
دن رات ۔۔
Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

موضوعات

بلاگ کا کھوجی