اگر تم کو محبّت تھی
تو تم نے راستوں سے جاکے پوچھا کیوں نہیں، منزل کے بارے میں
ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا
درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا ؟
وہ ٹھنڈی اُوس میں بھیگا، مہکتا سا گلاب اور میں
مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا
چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جُگنو کی لو پانا
کبھی کاغذ کی کشتہ پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا
کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اٹھلانا
تمھیں بھی یاد تو ہوگا ؟
اگر تم کو محبّت تھی تو، تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے ؟
نہیں جاناں !
محبّت تم نے دیکھی ہے، محبّت تم نے پائی ہے
محبّت کی نہیں تم نے ۔۔۔
0 comments:
Post a Comment