Wednesday, April 18, 2012

اپنے گھر میں

منہ دھو کر جب اس نے مڑکر میری جانب دیکھا
مجھ کو یہ محسوس ہوا جیسے کوئی بجلی چمکی ہے
یا جنگل کے اندھیرے میں جادو کی انگوٹھی دمکی ہے

صابن کی بھینی خوشبو سے مہک گیا سارا دالان
اُف ۔۔۔ ان بھیگی بھیگی آنکھوں میں دل کے ارمان
موتیوں جیسے دانتوں میں وہ گہری سرخ زبان
دیکھ کر گال پہ ناخن کا مدھم سا لال نشان
کوئی بھی ہوتا میری جگہ پر ، ہوجاتا حیران

( منیر نیازی )

Thursday, April 12, 2012

محبت کرنے والے دل ...

محبت کرنے والے دل

محبت کرنے والے دل
بس انکا ایک ہی محور
بس انکا ایک ہی مرکز
بس انکی ایک ہی منزل
بس انکی جستجو کا اور تڑپ کا
ایک ہی حاصل
انہیں بس ایک ہی دھن ہے
خدا محبوب کو ان کے
ہمیشہ شادماں رکھے
نا اسکا دل کبھی ٹوٹے
نا کوئی سانحہ گزرے
کوئی غم چھو نہیں پائے
اداسی پاس نا آئے
محبت کرنے والے دل
بہت حساس ہوتے ہیں
محبت کرنے والے دل
کبھی سودا نہیں کرتے
نا کوئی شرط رکھتے ہیں
نا ان کے معاوضے کی حرص ہوتی ہے
کسی رد عمل سے یا بدلے سے
انکو کیا مطلب
انا سے انکا کیا رشتہ
جفا سے کیا علاقہ
انہیں تو ایک ہی دھن ہے
خدا محبوب کو ان کے
ہمیشہ شادماں رکھے



خلیل اللہ فاروقی

Wednesday, April 11, 2012

مینوں کجھ ہو جاوے تے...

                                              یہاں ”عنایت سویٹس” بہت مشہور دکان ہے،جہاں سب پاکستانی چٹ پٹی اور مزےدار چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔پکوڑے، سموسے، دہی بھلے، فروٹ چاٹ، فالودہ، ہر قسم کی مٹھائی ۔ بحرین میں اور بھی سویٹس کی دکانیں ہیں پر عنایت سویٹس کا کوئی ثانی نہیں۔ جناب کم و بیش تیس سال سے یہاں مقیم ہیں، اور ماشاءاللہ بہت اچھا بزنس کر رہے ہیں۔


میرا دل کچھ چٹ پٹا کھانے کو کر رہا تھا، اپنے کولیگ سے ذکر کیا تو اس کا بھی دل للچایا۔ دونوں گپیں مارتے، بازار سے ہوتے عنایت کی دکان پر پہنچے۔ رستے میں میں زکریا صاحب کا ذکر کر رہا تھا جو میرے والد کے اچھے دوست تھی اور بحرین میں کافی عرصہ سے مقیم تھے۔ میں نے سوچا کہ عنایت سے اُن کے بارے دریافت کروں گا کہ اُن کی آرٹیفشل جیولری کی دکان بھی بازار میں ہی کہیں تھی اور والد صاحب کا سلام بھی پہنچانا تھا۔


کاؤنٹر پر آرڈر دیتے زکریا صاحب کے بارے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اُن کا اور اُن کے بڑے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔ سُن کر شاک لگا۔باقی دو بیٹے اب اُن کی شاپ سنبھلتے ہیں۔ عنایت نے اُن کی دکان کا پتہ سمجھایا اور واپسی پر اُن کی دکان پر جانے کا پروگرام بنا۔


پہلے سموسوں کی پلیٹ منگوا کر کھائی اور پھر بھلے۔ فارغ ہو کر کاؤنٹر کی طرف آئے تو کولیگ کو وہاں جلیبیاں پڑی نظر آئیں۔ اُس نے دو چار جلیبیاں لیں اور ہم زکریا صاحب کی دکان کی طرف چلنے لگے۔ وہاں پہنچے تو دکان بند تھی۔ کافی ٹائم ہوگیا تھا شاید اسی لیے۔ واپسی پر میرا کولیگ سارا رستہ عنایت کی بہت تعریف کرتا رہا کہ بہت اچھا بندہ ہے۔ سب تازہ پٹھائی وغیرہ بناتا ہے۔ اِس سے اچھے سموسے تو آج تک میں نے نہیں کھائے۔


کولیگ چونکہ میرا فلیٹ میٹ بھی ہے تو واپس آ کر اُس نے دودھ گرم کرنا شروع کیا۔میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے میں مصروف اور اتنا مگن کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ کب آیا اور ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھا۔ اُس نے جلیبیاں دودھ میں ڈالی اور کھانے لگا۔ آخری دو چار چمچ رہ گئے ہونگے تو معلوم نہیں کیا ہوا اُسے، زور زور سے چلانے لگا


”راتی میرا دھیاں ای رکھنا۔مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”


آئی واز لائک ۔” ہیںںںںںںںںںںں”


میں اس کا منہ دیکھنا شروع ہوگیا کہ اسے کیا ہوا اچانک؟؟


”او یار یہ عنایت بیپ بیپ بیپ، جلیبیاں ٹھیک نہیں۔ میرے منہ کا ذائقہ چینج ہو رہا ہے۔ باسی لگتی تھیں جلیبیاں”۔ اور نا جانے کیا کیا۔


یہ سب شور ختم ہوا۔ بعد میں اتنا ہنسے اس بات پر کہ پہلے اُس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا اور پھر ۔”مینوں کجھ ہو جاوے تے عنیتے نوں پڑ لینا”۔ :)

Tuesday, April 10, 2012

بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔

کل ایک مارننگ شو کی رپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھی۔ جس کا موضوع یہ سوال تھا


” کیا انعم کو عزیر کو معاف کر دینا چاہئے؟”


ہوسٹ رو رہی تھی۔ عزیر رو رہا تھا۔ انعم رہ رہی تھی۔ اُن دونوں کی  پیاری معصوم سی تین چار سال کی بیٹی باپ کو دو ماہ بعد دیکھ کر اُس سے لپٹ گئی، اور رونے لگی۔ اُس بچی کو دیکھ کر میرا دل بھی بھر آیا۔ جو نہیں جانتی تھی کہ وہ اس پروگرام میں کیوں آئی ہے، اُس کا باپ اتنے دن بعد اُس سے کیوں ملا ہے، اُس کی ماں اپنے خاوند سے الگ کیوں رہ رہی ہے۔


میزبان کے کہنے پر جب بچی نے اپنی ماں سے اپنے باپ کے لیے سفارش کی کہ ”امی گھر واپس چلیں نا”۔ تودیکھنے والے برداشت نہیں کر پائے ہوں گے۔


ابیھا(اگر میں غلط نہیں تو بچی کا نام تھا) جو اپنی ماں سے اِس معصوم سی خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔میاں بیوی کے جھگڑوں میں بچی ویران ہو رہی تھی۔ کافی منت سماجت کے بعد انعم نے عزیر کو معاف کیا اور عزیر نے بھی وعدہ کیا کہ وہ اب اچھا خاوند، اچھا باپ بن کے دکھائے گا۔


دیارِ غیر میں پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ابیھا کا سوال سُن کر مجھے اپنی بیٹی انابیہ کی یاد آئی جو جب بھی فون آتا ہے تو کہتی ہے ” بابا آپ گھر آجاؤ نا”۔


بیٹیاں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔

Monday, April 9, 2012

ایک چُپ سو سُکھ ۔۔۔

میں لکھنا نہیں چاہ رہا جو میں لکھنا چاہتا ہوں پر۔۔۔۔ ہنسی آتی ہے لوگوں کی باتیں پڑھ کر، سُن کر جب وہ آپ کو نصیحت کرتے ہیں حقائق جانے بغیر۔ایسے لوگوں کا میں تو کیا کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔بہتر یہی ہے کہ انہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔سوال کرنے کا وہ حق رکھتے ہیں ، جواب دینے نہ دینے کا حق میرے اختیار میں ہے۔


اچھے لوگ ہی اچھی نصیحت کرتے ہیں، اور اُن کی نصیحت پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ کسی کے بارے میں جانے بغیر آپ کوئی رائے نہیں دے سکتے، یہ بات مجھ سمیت سب پر لاگو ہوتی ہے۔


سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ اِس میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جسے مخاطب کیا جا رہا ہے آپ اُسے سمجھدار سمجھ رہے ہیں اور دوسری یہ کہ آپ اُسے  عزت دے رہے ہیں۔اب کوئی اس بات سے انکاری ہے کہ وہ سمجھدار نہیں تو ٹھیک ہے، مان لیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی انہیں سمجھدار سمجھنے میں۔اُسکے لیے ہم معذرتخواہ ہیں۔آئندہ احتیاط کریں گے۔


بزرگوں کی بات سُننا چاہئے۔ بات سُنی بھی اور خاموش بھی رہے۔ میرے خیال میں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔


اللہ پاک آپ سب کو اور مجھے ہدایت کی راہ پر چلائے۔ آمین۔

Sunday, April 8, 2012

چھاپا...

میرے ایک بھائی نے بلاگ پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ میں بہت زیادہ پوسٹس کرتا ہوں اور اُن کا خیال ہے کہ کاپی پیسٹ کا اچھا استعمال کرتا ہوں۔ :)


 


اُن کا کامنٹ تو میں نے منظور نہیں کیا، البتہ اُن کو جواب ضرور دینا چاہوں گا۔


 


تو میرے بھائی پہلے تو آپ کو یہ مسئلہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں کتنی پوسٹ کرتا ہوں۔ ایک پوسٹ کروں، دس کروں یا سو۔ آپ کو اگر اچھا نہیں لگ رہا تو آپ میرے بلاگ کو نظرانداز کر دیا کریں۔ اور دو دن چھٹی ہوتی ہے دفتر سے اِس لیے کل اور پرسوں میں نے کوئی پوسٹنگ نہیں کی۔


دوسری بات رہی کاپی پیسٹ والی تو جناب آپ مجھے یہ بتائیں کہ کون نہیں کرتا کاپی پیسٹ؟؟ آپ نہیں کرتے ؟؟ باقی سب نہیں کرتے ؟؟ اور اگر میں کاپی پیسٹ کرتا بھی ہوں تو اُس کا حوالہ بھی دیتا ہوں۔ افسانے، غزلیں، لطائف یہ سب میں کسی نہ کسی فورم پہ خود لکھ کر پوسٹ کر چکا ہوں، تو بجائے دوبارہ محنت کرنے کے کیوں نہ وہیں سے کاپی پیسٹ کروں؟؟ :) ۔۔ ٹھیک ہے نا۔


اب اگر آپ یہ کہیں کہ ” میرا یہ کہنے کا مقصد نہیں تھا” تو جناب مقصد آپ کا جو بھی رہا ہو، میرے دل کو آپ کی بات پسند نہیں آئی۔ آپ کو اگر اتنی ہی پرابلم ہے میرے بلاگ یا میرے پوسٹ کرنے سے، تو ہوتی رہے۔ ہم چھاپا مارنے سے باز نہیں آئیں گے۔ :)


 


میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اچھے اور بامقصد مشوروں پر غور کیا جائے گا۔


اللہ آپ، مجھے اور سب کو اچھا صحت عطا فرمائے۔ آمین

Thursday, April 5, 2012

استغفراللہ

ایک تبلیغی جماعت کے امیر نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی کہ جب بھی وہ کسی عورت کو دیکھیں تو ‘استغفراللہ‘ پڑھیں۔

سفر شروع ہوا پر کوئی عورت نظر نہیں آئی۔

اچانک ایک ساتھی نے کہا “ استغفراللہ“۔

 باقی ساتھی بولے۔“ کدھر ہے؟؟ کدھر ہے؟؟؟“۔

میاں والی میں دھماکہ ۔۔۔ ۔!

اخبار کے ایڈیٹر نے سب ایڈیٹر سے کہا:
“ یہ تم نے کیا سُرخی بنائی ہے؟ بیوی میں دھماکہ؟؟“۔
سب ایڈیٹر نے مؤدب لہجے میں جواب دیا:
“ جناب میں نے تو خبر کو آسان الفاظ میں لکھا ہے“۔
“ خبر کے اصل الفاظ کیا ہیں“۔ ایڈیٹر نے پوچھا تو سب ایڈیٹر نے جواب دیا:
“ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ میاں والی میں دھماکہ ۔۔۔ ۔!!!!!!“۔

ایک مولوی ،ایک پنڈت اور ایک پادری

ایک مولوی ،ایک پنڈت اور ایک پادری آپس میں گہرے دوست تھے۔ایک روز تینوں نے کشتی میں بیٹھ کر دریا سے مچھلی پکڑنے کا پروگرام بنایا۔شکار کے دوران جب کشتی بیچ دریا میں تھی تینوں کا دل کافی پینے کو چاہا۔


 مولوی صاحب اُٹھے بسم اللہ کہا اور دریا کی سطح پر چلتے ہوئے گئے اور کافی کی ٹرے لے آئے ۔


 تقریباً دو گھنٹے کے بعد کھانے کا وقت ہوا پادری صاحب اُٹھے یسوع کہا دریا کی سطح پر چلتے ہوئے گئے اور کنارے سے کھانا لے آئے۔


 سہ پہر کی چائے لانے کا وقت ہوا تو پنڈت جی اُٹھے اور اوم کہہ کر دریا میں اتر گئے پر پانی پر قدم رکھتے ہی غوطے کھانے لگے مولوی اور پادری نے بڑی مشکل سے اُنہیں پانی سے باہر نکالا۔


 پنڈت جی بہادر انسان تھے دو چار منٹ بعد پھر چائے لینے کے لئے پانی میں اُتر پڑے اوم کہہ کر دریا میں پاؤں رکھا اور بچاؤ بچاؤ کہنے لگے۔ملوی اور پادری نے ایک بار پھر اُنہیں پانی سے باہر نکالا۔


 تیسری مرتبہ جب پنڈت جی چائے لانے کے لئے کمر بستہ ہوئے تو مولوی نے پادری سے کہا،


 یار پادری صاحب پنڈت جی کو دریا میں اُبھرے پتھروں والا راستہ دکھاؤ ورنہ یہ ڈوبے بغیر نہیں مانیں گے۔

اپنی خواہش ۔۔۔

یہ کہانی ایک فورم پہ پڑھی، بلاگ پر شئیر کی جا رہی ہے۔


مثنوی مولانا روم کی ہے کہ کوئی چور تھا ، تو اس کے اندرکچھ پیسہ بنانے کی خواھش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا یا اپنی ذات کے لئے رکھنا چاہتا تھا -
اس نے ایک رات ایک گھر کے روشن دان میں سے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ یہ اچھا گھر ہے ،اور مجھے یہاں سے کوئی مال و مطاع ملے گا ، لیکن جب وہ اتنا اونچا چڑھا ، اور روشن دان کے اندر سے گزرنے کی کوشش کی ، تو وہ روشن دان جس کا چوکھٹا بظاہر ٹھیک نظر آتا تھا ، ڈھیلا لگا تھا , وہ بمع چوکھٹے کے اندر کے فرش پر سر کے بل آگرا ، اور اس کو سخت چوٹیں آئیں ، چنانچہ اس نے وہ چوکھٹا اٹھایا اور قاضی وقت کے پاس شکایات کے لئے لے گیا -
دیکھیں کیا کمال کے آدمی تھے - اس نے کہا ، جناب دیکھیں میں چوری کرنے کے لئے وہاں گیا تھا - یہ کیسا نالائق مستری ہے کہ جس نے ایسا چوکھٹا بنایا کہ یہ ٹوٹ گیا ہے ، اور کرچیاں کرچیاں ہو گئیں ہیں تو اس کو سزا ملنی چاہئے -
قاضی وقت نے کہا ، یہ تو واقعی بری بات ہے - اس لکڑی بیچنے والے کو بلایا گیا ، چنانچہ وہ پیش ہوگیا - اس نے کہا ، جناب اس گھر کی کھڑکی تو میں نے بنائی تھی - اس سے کہا گیا تم نے ایسا قسم کی ناکارہ لکڑی لگائی - اس نے کہا جناب اس لکڑی کو بھی دیکھ لیں کسی سے ٹیسٹ کروائیں اس میں کوئی نقص نکلا تو میں ذمیدار ہوں -
حضور بات یہ ہے کہ اس میں خرابی ہماری لکڑی کی نہیں اس ترکھان کی ہے جس نے یہ چوکھٹا ڈائیمنشن کے مطابق نہیں بنایا -
انھوں نے ترکھان یا بڑھئی کو بلایا ہے وہ پیش ہوگیا - ترکھان نے کہا میں نے چوکھٹا بلکل ٹھیک بنایا ہے یہ میرا قصور نہیں آپ ماہرین بلوا لیں وہ بتادیں گے میرے چوکھٹے میں کوئی خرابی نہیں - میں یقین سے کہتا ہوں یہ چوکھٹا بلکل ٹھیک ہے - راج معمار جس نے اس کو فٹ کیا تھا یہ ساری کوتاہی اس کی ہے چنانچہ راج معمار کو بلوایا گیا وہ عدالت میں پیش ہوگیا -
قاضی وقت نے کہا ، اے نالائق آدمی بہت اعلا درجے کا چوکھٹا بنا ہوا ہے ڈائی مینشن اس کی درست ہے تو نے کیوں "موکھا " اس کا ڈھیلا بنایا ، تو نے صحیح طور پر اسے فٹ کیوں نہیں کیا -
اس نے سوچا واقعی عدالت ٹھیک پوچھ رہی ہے - چوکھٹے میں اور دیوار میں فاصلہ تو ہے - اس نے کہا حضور بات یہ ہے ، مجھے اب یاد آیا ، جب میں چوکھٹا لگا رہا تھا تو میں نے باہر سڑک پر دیکھا اس وقت ایک نہایت خوبصورت عورت اعلا درجے کا لباس پہنے ، بے حد رنگین لہنگا اور بے حد رنگین دوپٹہ اوڑھے جا رہی تھی ، مزے سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی ، تو میری توجہ اس کی طرف ہو گئی - جب تک وہ سڑک پر چلتی رہی میں اس کو دیکھتا رہا میں پوری توجہ نے دے سکا اور چوکھٹے کو صحیح طرح سے نہ لگا سکا -


انھوں نے کہا اس عورت کو بلاؤ ، عورت کو سب تلاش کرنے لگے ، شہر میں سب جانتے تھے جو چھمک چھلو تھی کہ وہ وہی ہو گی سو عدالت میں پیش کر دیا گیا -
پوچھا گیا کیا تم یہاں سے اس روز گزری تھیں ؟ کہا ہاں میں گزری تھی - اس نے کہا تم نے ایسا لہنگا پہنا ، ایسا غرارہ پہنا تھا ، تو کیوں پہنا تھا ؟
حضور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے مجھ سے کہا یہ تم کیا ڈل کلرز پہنتی ہو - یہ کچھ اچھے نہیں لگتے ، تمہارے رخ زیبا کے اوپر یہ کپڑے سجتے نہیں ہیں - بہت اعلا قسم کے شوخ ، اور بھڑکیلے قسم کے پہنو -
عدالت نے کہا اس خاوند کو حاضر کیا جائے ، چنانچہ وہ اس کے خاوند کو پکڑ کر لے آئے ، عدالت کے سامنے پیش کر دیا - وہ خاوند وہی شخص تھا ، جو روشن دان سے چوری کرنے کے لئے اترا تھا-
اس کی خواہش میں وہ خود کھڑا تھا - اتنا چکر کاٹ کر آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا گزر رہی ہے - وہ کہاں پر اپنی ہی خواہش ، اپنی ہی آرزو کے درمیان کھڑا تھا -

Wednesday, April 4, 2012

نگار خانہ

کسی کی شربتی نظر
کوئی مہکتا پیرہن
دمکتی سُرخ چوڑیاں !
چمکتا ریشمی بدن
کئی جُھکے جُھکے شجر
ہرے بنوں میں گھومتی
کوئی اداس رہگزر
حنا کے رنگ میں بسے کسی نگر کے بام و دَر
رہیں گے یاد عمر بھر

منیر نیازی

زباں ہے تو نظر کوئی نہیں‌ ہے

زباں ہے تو نظر کوئی نہیں‌ ہے
اندھیرے ہیں، سحر کوئی نہیں ہے

محبت میں فقط صحرا ہیں جاناں
محبت میں شجر کوئی نہیں‌ ہے

خموشی چیختی جاتی ہے لیکن
کسی پر بھی اثر کوئی نہیں‌ ہے

بھری بستی میں‌ تنہا کر گئے ہو
کہ جیسے یاں خطر کوئی نہیں ہے

اگر انساں کے بارے پوچھتے ہو
بہت سے ہیں مگر کوئی نہیں ہے

میں اپنے آپ ہی سے ڈر رہا ہوں
مجھے تیرا تو ڈر کوئی نہیں‌ ہے




فرحت عباس شاہ

Tuesday, April 3, 2012

میں ایسی محبّت کرتی ہوں

تم جب بھی گھر پر آتے ہو


 اور سب سے باتیں کرتے ہو


 میں اوٹ سے پردے کی جاناں
بس تم کو دیکھتی رہتی ہوں
اِک تم کو دیکھنے کی خاطر
میں کتنی پاگل ہوتی ہوں

میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟؟

جب دروازے پہ دستک ہو
یا گھنٹی فون کی بجتی ہو
میں چھوڑ کے سب کچھ بھاگتی ہوں
اور تم کو جو نہ پاؤں تو
جی بھر کے رونے لگتی ہوں

میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟؟

محفل میں کہیں بھی جانا ہو
کپڑوں کی سلیکشن کرنا ہو
رنگ بہت سے سامنے بکھرے ہوں
اُس رنگ پہ دل آجاتا ہے
جو رنگ کے تم کو بھاتا ہے

میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟؟

روزانہ اپنے کالج میں
کسی اور کا لیکچر سُنتے ہوئے
یاں بریک کے خالی گھنٹے میں
سکھیوں سے باتیں کرتے ہوئے
میرے دھیان میں تم آ جاتے ہو
میں، میں نہیں رہتی پھر جاناں
میں تم میں گُم ہو جاتی ہوں
بس خوابوں میں کھو جاتی ہوں
اُن آنکھوں میں کھو جاتی ہوں

میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟؟

ہر چہرہ تم سا لگتا ہے
وہ شام ہو یا پھر دھوپ سمے
سب کتنا بھلا سا لگتا ہے
جانے یہ کیسا نشہ ہے
گرمی کا تڑپتا موسم بھی
جھاڑے کا مہینہ لگتا ہے

میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟؟

تم جب بھی سامنے آتے ہو
میں تم سے سُننا چاہتی ہوں
کاش کبھی تم یہ کہہ دو
تم مجھ سے محبت کرتے ہو
تم مجھ کو بہت ہی چاہتے ہو
لیکن جانے تم کیوں چُپ ہو
یہ سوچ کے دل گھبراتا ہے
ایسا تو نہیں ہے نہ جاناں
صرف میری نظر کا دھوکا ہو
تم نے مجھ کو چاہا ہی نہ ہو
میں تم سے پوچھنا چاہتی ہوں
میں تم سے کہنا چاہتی ہوں
لیکن کچھ پوچھ نہیں سکتی
مانا کے محبت ہے پھر بھی
لب اپنے کھول نہیں سکتی
میں لڑکی ہوں کیسے کہہ دوں
میں کیسی محبت کرتی ہوں
میں تم سے یہ کیسے پوچھوں
تم کیسی محبت کرتے ہو
چُپ چُپ سی میں ہو جاتی ہوں
پھر دل میں اپنے کہتی ہوں

میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟؟




خلیل اللہ فاروقی

Monday, April 2, 2012

' بے یقینی سے یقین تک '

یہ تحریر بھی کافی عرصہ پہلے شئیر کر چکا ہوں، اِس بار بلاگ پر پوسٹ کر رہا ہوں۔

 

 

' بے یقینی سے یقین تک '



اس نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور دادو کے دعا ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ دادو نے دعا مکمل کرتے ہی اسے دعائیں دیں۔" جیتی رہ، سلامت رہ، رب سوہنا تجھے صدا خوش رکھے "۔ وہ دادو کے پاس تخت پر ہی بیٹھ گئی۔


" دادو! بابا جانی پھر نہیں آئے۔ انہیں کتنے ہی فون کئے مگر وہ یہی بولتے رہے۔ ابھی آرہا ہوں، ابھی آ رہا ہوں۔ میں ان کا انتظار ہی کرتی رہ گئی، مجھے انہیں اپنے دوستوں سے ملوانا تھا۔ لیکن وہ نہیں آئے "۔


وہ شکایات کا دفتر کھول کر بیٹھ گئی۔" اسے دفتر میں ضروری کام ہوگا اس لیے رُک گیا ہوگا"۔


" ایسا بھی کیا ضروری کام تھا۔ کیا میری سالگرہ سے بھی ضروری تھا۔ انہیں میرا ذرا بھی خیال نہیں، کتنی شرمندگی اٹھانا پڑی ناں، مجھے اپنے دوستوں کے سامنے"۔ نا معلوم اسے شرمندگی کا افسوس زیادہ تھا یا اپنے باباجان کے نا آنے کا۔


" تو تُو کسی اور دن بُلا لینا اپنے دوستوں کو اپنے باباجان سے ملوانے کے لئے"۔


" نہیں دادو، اب میں انہیں کبھی نہیں بلواؤں گی۔ اب روز روز تو شرمندہ نہیں ہونا مجھے ان کے سامنے۔ باباجانی کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے کام سے زیادہ کوئی اور چیز اہم لگتی ہی نہیں"۔


 " تو وہ سب کس کے لیے کرتا ہے۔ ایک ہی تو لاڈو دھی ہے اس کی۔ وگرنہ گھر میں کون ہے، اس نے تیرے لیے ہی تو دوسری شادی نہیں کی کہ نامعلوم سوتیلی ماں کیسا سلوک کرے"۔


" دادو! میں بھی تو ان کا خیال رکھتی ہوں۔ کتنا پیار ہے مجھے ان سے، اُن کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتی ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کرتی ہوں اور ان کے کپڑے نکالتی ہوں اور وہ اس وقت بےخبر پڑے سو رہے ہوتے ہیں۔ رات دیر تک اُن کے دفتر سے آنے کا انتظار کرتی ہوں اور وہ ۔۔۔ ۔ وہ میری سالگرہ تک پر نہیں آ سکتے"۔ 


" جن سے محبت ہوتی ہے، جن سے پیار ہوتا ہے ان کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مجبوریوں سے بھی اتنا ہی پیار کیا جاتا ہے جتنا کہ خود اُن سے"۔ 


" پر دادو! اُن کو بھی تو خیال رکھنا چاہئے ناں، محبت کا پیار کا یہ مطلب تو نہیں کہ صرف ایک ہی قربانیاں دئیے جائے، محبتیں نچھاور کئے جائے اور دوسرا صرف اسی پر اکتفا کیے بیٹھا رہے کہ مجھے بھی محبت ہے اور کہیں بڑھ کے ہے"


" تو بڑی بےوساہی ہے، بڑی بےیقین ہے۔ ادھر آ میرے پاس"۔اُسے ساتھ لگا کر دلاسہ دیتے ہوئے بولیں۔" دھئیے! یہ جو بےیقینی ہوتی ہے یہ بڑی ظالم شے ہے، انسان کو کسی کم جوگا نہیں چھوڑتی، یہ شہرے سے بھرے پیالے میں سرکے کہ مانند ہوتی ہے جو ساری مٹھاس تباہ کر ڈالتی ہے۔ تجھے اگر اپنے باباجانی سے پیار ہے تو تجھے یقین ہونا چاہئے کہ تیرے بابا کو بھی تجھ سے پیار ہے۔ کم از کم اتنا تو ضرور کہ جتنا تجھے ہے"۔


" خود کو بےیقینی کی دلدل میں نہ پھنسا۔ یہ آہستہ آہستہ انسان کو نگل جاتی ہے۔ بے یقینی سے تو مانگی گئی دعا اور عبادت بھی قبول نہیں ہوتی۔ رب سوہنا فرماتا ہے کہ جب تجھے مجھ پر یقین ہی نہیں تھا تو مانگا کیوں اور سجدہ دیا کیوں؟"۔ 


" تو دادو اگر باباجان کو مجھے سے اتنا ہی پیار تھا تو آئے کیوں نہیں؟ اس سے پہلے میں نے کبھی ان سے ضد نہیں کی۔ بس آج ہی تو اتنا اسرار کیا تھا"۔ 


" پتہ نہیں اسے کیا مجبوری آن پڑی۔ خُدا خیر کرے۔ اس سے پہلے اس نے خود بھی تو ہر بات کا خیال رکھا ہے۔ نوبت ہی نہیں آئی"۔ 


اتنی دیر میں اس کے بابا کی گاڑی کی آواز آئی۔ وہ اس کے باوجود دادو کے پاس ہی بیٹھی رہی۔ سعید رحمان خود ہو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور آوازیں دیتے ماں کے کمرے تک چلے آئے۔ 


" فضہ بیٹا! بابا کی جان تم یہاں ہو اور میں نے سارا گھر چھان مارا"۔


ان کے ماتھے پر پٹی بندھی تھی اور ہاتھ میں اس کی سالگرہ کا تحفہ۔ 


" بابا! یہ آپ کے سر پر کیا ہوا؟"۔ وہ جلدی سے اُٹھ کر تحفہ ایک طرف رکھتے ہوئے بابا کے سر پر بندھی پٹی کو چھوتے ہوئے بولی۔ وہ بڑی خوشدلی اور زندہ دلی سے مسکرائے۔ 


" بابا کی جان! آپ کے لیے تحفہ خرید کر واپس آتے ہوئے راستے میں ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔ میرا ڈیش بورڈ سے سر ٹکرا گیا، وہ تو اللہ کا کرم ہے کہ میرے آفس کے ساتھ میرے ساتھ تھے۔ وہی ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور ناجانے میں کب تک بےہوش رہا۔ گھر اطلاع نہیں کر سکا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ میری بیٹی کی سالگرہ ہے۔خوامخواہ میں بدمزگی ہوتی۔ اب جب ہوش آیا ہے تو وہی مجھے گھر چھوڑ کر واپس چلا گیا ہے"۔ 


وہ سٹپٹا گئی۔ بابا کے گلے لگ گئی۔" باباجانی! آپ کو کچھ ہوجاتا تو میں جیتے جی مر جاتی"۔ وہ روتے روتے دادو کو دیکھنے لگی، جو اس کی جانب ہی دیکھ رہی تھیں۔ جیسے کہہ رہی ہوں۔" دیکھا پُتر! میں نا کہتی تھی کہ بےوساہی، بے یقینی بڑی ظالم شے ہے، یہ انسان کو کسی کم جوگا نہیں چھوڑتی۔ پر اب تو تجھے یقین آجانا چاہئے"۔ 




سحرش کلثوم  

محبت کچھ نہیں ہوتی

مجھے اکثر یہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی

ہجر کا خوف بے مطلب‘ وصل کے خواب بے معنی

کوئی صورت نگاہوں میں کہاں دن رات رہتی ہے

 اسے کیوں خامشی کہیے کہ جس میں بات رہتی ہے

 یہ آنسو بے زباں آنسو بھلا کیا بول سکتے ہیں

 کہاں دل میں کسی کی یاد سے طوفان اٹھتے ہیں

 کہاں پلکوں کے سائے میں نمی دن رات رہتی ہے

 کہاں ہوتی ہیں وہ آنکھیں جہاں برسات رہتی ہے

 مجھے اکثر یہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی!

مگر جب آج برسوں بعد میں نے اُس کو دیکھا ہے

 کہ اُس کی جھیل آنکھوں میں ہجر کا خوف رہتا ہے

 وصل کے خواب رہتے ہیں وہاں برسات رہتی ہے

 یوں لگتا ہے کئی راتوں سے وہ سوئی نہیں شاید

 یوں لگتا ہے کسی کی یاد اب دن رات رہتی ہے

 اور اس کی نرم پلکوں کے حسیں سائے بھی گیلے ہیں

 اور اُس کی خامشی ایسی کہ جس میں بات رہتی ہے

 مجھے اب وہ نہیں کہتی محبت کچھ نہیں ہوتی

 کہ اب شاید محبت کی وہ سب رمزیں سمجھتی ہے

 

عاطف سیعد

پیاس کے عالم میں کیا بولوں

پیاس کے عالم میں کیا بولوں مجھ کو کیسا لگتا ہے

 اک قطرہ بھی اس دم عاطفؔ دریا جیسا لگتا ہے


سُوکھے پتوں کی آہٹ اب بھی مجھ کو چونکاتی ہے

 یاد ہے مجھ کو اُن پر چلنا تم کو اچھا لگتا ہے


میں تو اپنے آپ کو اکثر یہ سمجھاتا رہتا ہوں

 تو سب کچھ ہے پھر بھی آخر تو میرا کیا لگتا ہے


اتنی مدت سے آنکھوں میں خواب نہیں اترا کوئی

 کہ اب سپنا بھی دیکھوں تو مجھ کو سپنا لگتا ہے


تم کیا میرے پیار کی شدت پیمانوں سے ناپو گے

 پیار میں جتنا بھی کرتا ہوں مجھ کو تھوڑا لگتا ہے


اپنی آنکھوں میں خوابوں کو لوگ سجائے بیٹھے ہیں

 خوابوں کا سوداگر پھر سے شہر میں آیا لگتا ہے


دل کے بہلانے کو سب سے کہتا ہوں تنہا خوش ہوں

 سچ پوچھو تو تنہا رہنا کس کو اچھا لگتا ہے


پلکوں کی باڑھوں پہ جو تم اشک سجائے بیٹھے ہو

 دل میں یادوں کا پھر کوئی جھونکا آیا لگتا ہے


جیسے بھیڑ میں بچہ کوئی گم ہو جاتا ہے عاطفؔ

 تم جب ساتھ نہیں ہوتے ہو مجھ کو ایسا لگتا ہے


عاطف سعید

دردِ مشترک

تمھیں دیکھا نہیں، جانا نہیں، پھر بھی یہ لگتا ہے

 قبیلہ ایک ہے اپنا

وہی دردِ جُدائی ہے، وہی بھیگی ہوئی پلکیں

 نصیبہ ایک ہے اپنا

کسی سے کچھ نہیں کہنا، کوئی شکوہ نہیں کرنا

 قرینہ ایک ہے اپنا

 کسی کی یاد سے، ویرانہِ دل جگمگا لینا

خزینہ ایک ہے اپنا

یقیں کی آخری حد تک، مِلن کی خوش گمانی ہے

 نتیجہ ایک ہے اپنا

خلیل اللہ فاروقی

محبت کی نہیں تم نے ۔۔۔

اگر تم کو محبّت تھی


تو تم نے راستوں سے جاکے پوچھا کیوں نہیں، منزل کے بارے میں


ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا


درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا ؟


وہ ٹھنڈی اُوس میں بھیگا، مہکتا سا گلاب اور میں


مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا


چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جُگنو کی لو پانا


کبھی کاغذ کی کشتہ پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا


کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اٹھلانا


تمھیں بھی یاد تو ہوگا ؟


اگر تم کو محبّت تھی تو، تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے ؟


نہیں جاناں  !


محبّت تم نے دیکھی ہے، محبّت تم نے پائی ہے


محبّت کی نہیں تم نے ۔۔۔




فاخرہ بتول

Sunday, April 1, 2012

دروازہ بند کر لو ۔۔۔

سرکاری چھٹیاں بلاگ سے بھی چُھٹی کروا دیتی ہیں۔ اب یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ بلاگ پر جمعہ ہفتہ چُھٹی ہوا کرے گی۔

 

آپ کتنی دیر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں ؟؟

آپ کتنی دیر انٹرنیٹ پر ویڈیو یا وائس چیٹ کرسکتے ہیں ؟؟

آپ کتنی دیر خود کو کمرے میں بند کرکے ویڈیو یا وائس چیٹ پر اونچی آواز میں بےتُکے اور بےمعنی مشورے دے سکتے ہیں ؟؟ (اور وہ بھی ایسے شخص کو جو آپ سے جان چُھڑانا چاہ رہا ہو)۔

اِن سوالوں کا اگر میں خود سے جواب دوں تو وہ یوں ہوں گے۔

 

انٹرنیٹ زیادہ سے زیادہ پانچ سے چھ گھنٹے جن میں متعدد بار بریک ہوں گی۔ میرے خیال میں تو یہ بھی زیادہ ہیں۔

ویڈیو یا وائس چیٹ ایک گھنٹہ زیادہ بولنا پسند نہیں کیونکہ حال احوال کے بعد ”اورسناؤ، اور، اور کوئی نئی تازی” کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ویڈیو چیٹ میں دیکھنے اور دیکھانے والا ایک دوسرے کی صورت کتنی دیر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو ایک گھنٹہ بھی بڑی مشکل سے برداشت کر سکتے ہوں گے۔

تیسرے سوال کا جواب یوں ہے کہ کمرے میں بند ہوئے بغیر بھی بےتُکے مشورے دیئے جا سکتے ہیں۔ اور اگر دیکھنے والے کے چہرے سے معلوم ہو جائے کہ برداشت کر رہا ہے مجھے تو فورا بات ختم کر دی جائے اور اللہ حافظ کہہ دیا جائے کہ اِسی میں بھلائی ہے۔

نیٹ استعمال کرتے کمرہ بند کرنے کی تھوری اور اس پر عمل آج تک سمجھ نہیں آیا۔ کیا نیٹ کمرہ بند کئے بغیر بھاگ جاتا ہے ؟؟ اور نہیں تو کیوں خود کو سزا دی جا رہی ہے۔اگر آپ اتنی ہی خفیہ بات چیت کرنا چاہ رہے ہیں تو کم سے کم اپنی آواز کو دھیما تو رکھیں نہ کہ گھر میں موجود باقی افراد کو آپ کی یہ ”خفیہ” بات سنائی دے۔

اب اگر یہی سوال میں اپنے فلیٹ میٹ سے پوچھوں تو وہ عملی طور پر آپ کو یہ سب کرکے دیکھائے گا۔ سوالوں کے جواب یوں ہوں گے۔

میں کم سے کم اٹھارہ سے بیس گھنٹے نیٹ یوز کر سکتا ہوں اور انِ میں بریکس اتنی ہوسکتی ہیں کہ پانی پینے اُٹھوں اور واپس آ جاؤں۔ کھانا میں اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ کھانا پسند کرتا ہوں۔ :)

آپ مجھے سے جتنی دیر مرضی وائس یا ویڈیو چیٹ کروا لیں میں ہار نہیں مانتا۔

کمرے میں بند ہونے کی وجہ یہی ہے کہ آپ مجھے نہ دیکھ سکیں اور نہ سُن سکیں کہ میں کن سے اور کس سلسلے میں گفتگو کر رہا ہوں۔ پراویسی بھی تو ہونی چاہئے نا۔ اور اونچی آواز میں اس لیے بات کرتا ہوں کہ سُننے والا بہت دور بیٹھا ہوتا ہے اُسے  میری بات صحیح سے سُنائی دے جائے۔دراصل مجھے مفید مشورے دینے کا بہت شوق ہے۔ اور میں زیادہ دیر مشورہ اپنے اندر نہیں رکھ سکتا۔ مشورہ پھدک رہا ہوتا ہے اندر ، کہ مجھے باہر نکالو۔ اور بریک میں اس لیے نہیں لیتا کہ بہت سیریس گفتگو ہو رہی ہوتی ہے، میں نہیں چاہتا کہ مجھ سے بات کرنے والا یہ سمجھے کہ مجھ سے بات کرنےمیں سیریس نہیں ہے۔

اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مثال دیں گے کہ جن سے بات کر رہا تھا وہ بہت پریشان ہے، بیوی بات نہیں سُنتی، گھر میں لڑائی رہتی ہے کیا کروں؟؟ مجھے یہ بات سُن کر ہنسی آئی کہ مشورہ کس سے مانگ رہا ہے۔ بیوی بات نہیں سُنتی تو اِس میں تمھارا دوست کیا کرے ؟؟ اور گھر میں لڑائی ہے تو لڑائی دوست نے کروائی ہے جو اُس سے دکھ سکھ شئیر کر رہے ہو؟؟ اور مشورہ دینے والا جب یہ مشورہ دے کہ بیوی بات نہیں سُنتی تو تم بھی نہ سُنا کرو :) اور گھر میں لڑائی ہے تو تم بھی دو چار ہاتھ مار لیا کرو :) ۔۔ تو بھلا آپ کیا کہیں گے :)۔

میرے خیال میں نیٹ ایک فائدہ مند چیز ہے جسے آپ کمرے بند کیے بغیر بھی اور زیادہ سے زیادہ میل یا کبھی کبھار ویڈیو یا وائس چیٹ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اگر نہیں تو کم سے کم دوسروں کو اپنے ”مفید” مشورے نہ دیں۔ اور نہ اسے کام کریں جس سے آپ کو کمرہ بند کرنا پڑے :)۔

دراصل سب اُلٹے کام دروازہ بند کرکے ہی کئے جاتے ہیں۔
Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی