Wednesday, March 28, 2012

بھلا کیا پڑھ لیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں

بھلا کیا پڑھ لیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں



بھلا کیا پڑھ لیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں


 کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں

کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے

کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دُکھ پہ بھیگنا بُھولی نہیں آنکھیں

ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں

نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک شخص کو دِل سے لگا رکھتا

میں دُشمن کو بھی گنتا ہوں محّبت کے سفیروں میں

سبیلیں جس نے اپنے خون کی ہر سو لگائی ہوں

 میں صرف ایسے غنی کا نام لکھتا ہوں امیروں میں

بدن آزاد ہے، اندر میرے زنجیر بجتی ہے

 کہ میں مختار ہو کر بھی گنا جاؤں اسیروں میں

احمد ندیم قاسمی

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی