Tuesday, March 20, 2012

کھودا پہاڑ اور نکلے چوہے ۔۔۔

بحرین دوبارہ آئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ دوبارہ اس لیے کہ پہلے والد یہاں نوکری کرتے تھے اور بچپن ہمارا یہیں گزرا ہے۔ سن 95ء میں ہماری واپسی ہوئی اور والد اپنی سروس ختم کرکے 03ء میں واپس گئے۔

اب میرا سولہ سال بعد یہاں آنا ہوا ہے۔ اچھا بھی لگتا اور دوسری طرف دُکھ بھی ہوتا ہے۔ آج کا بحرین اور سولہ سال پہلے کے بحرین میں بہت فرق آگیا ہے۔ اچھا اِس لیے کہ بحرین والوں نے بڑی ترقی کر لی ہے، کُھلی کھلی سڑکیں، اونچی عمارتیں، صاف صفائی اور ایسے ہی دیگر معاملات۔۔ اور دُکھ اِس لیے کہ یہاں کی عوام اپنے حکمران سے خوش نہیں اور وہ آئے دن کچھ نا کچھ کرتی رہتی ہے جس سے یہاں رہنے والوں کو تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے۔

آپ میں سے اکثر جو گلف میں رہتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ بحرین کی آبادی بارہ لاکھ سے کچھ اوپر ہے اور اس کا رقبہ 700 مربع کلومیڑ ہے۔ آبادی میں ساڑے پانچ لاکھ بحرین اور چھ لاکھ غیر ملکی ہیں۔ بحرین کی 71 فیصد آبادی مسلم اور باقی 21 فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اُس مسلم آبادی کا  70 فیصد شیعہ مسلم اور 30 فیصد سُنی مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ بادشاہ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ ، ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد آل خلیفہ اور وزیراعظم خلیفہ بن سلمان آل خلیفہ ہیں۔ خلیفہ فیملی 1797ء سے یہاں حکومت کر رہی ہے اور یہ سُنی حکمران ہیں۔ اِس سے پہلے یہاں ایرانی حکمرانوں کی حکومت رہی اور وہ سب شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔

آل خلیفہ فیملی دراصل کویت سے آئی تھی۔ 1802ء میں یہاں عمانی حکمران سے قبضہ کیا اور اپنے بارہ سالہ بیٹے کو بحرین کا امیر مقرر کیا۔1820ء میں آل خلیفہ قبیلے نے بحرین پر دوبارہ قبضہ کیا اور برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو اُس وقت خلیج فارس میں غالب فوجی طاقت تھی۔1932ء میں یہاں تیل دریافت ہوا اور 1935ء میں برطانیہ کی رائل نیوی نے اپنا بحری اڈا ایران سے بحرین منتقل کیا۔ اور اِن دونوں میں تعلقات اور بہتر اور گہرے ہونے لگے۔

1957ء میں ایرانی پارلیمنٹ نے ایک بِل پاس کیا جس میں بحرین کو ایران کا چودواں صوبہ قرار دیا گیا، ایران کوشش کرتا رہا کہ یہاں ریفرنڈم کروایا جائے۔ ایران اور برطانیہ کی درخواست پر اقوام متحدہ نے بحرین میں ایک سروے کروایا  جس میں علاقے کے سیاسی مستقبل کا تعین کریا جانا تھا۔ لوگوں کی ایک بھاری اکثریت نے ایک مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ریاست کی حمایت کی۔

90 کی دہائی میں یہاں شیعہ سنی فساد شروع ہوئے اور ہماری واپس جانے کی وجہ بھی یہی بنی۔ سن 95ء میں یہ فساد عروج پر پہنچے جسے بعد میں قابو پالیا گیا۔ پاکستانی آبادی یہاں اسی نوے ہزار کے قریب ہے اور اِن کے علادہ انڈین آبادی دو لاکھ، بنگلہ دیشی ڈیڑھ لاکھ، فلپائنی تیس ہزار کے لگ بھگ ہیں۔

پاکستانی آبادی کا زیادہ حصہ بحرین پولیس میں شامل ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ یہاں کی شیعہ عوام پاکستانیوں کا پسند نہیں کرتی۔ یہ ان فساد کرنے والوں کو پکڑتے ہیں اور ان پر مقدمہ چلتا ہے اور پھر اُن کے گھر والے پاکستانیوں پر لعن تعن کرتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں۔ پاکستانیوں کو بادشاہ کی کافی سپورٹ رہی ہے بلکہ بادشاہ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ کے والد شیخ عیسٰی بن سلمان آل خلیفہ پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ خیر یہ تو گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔

فروری 2011ء کی بغاوت جو اُٹھی تو اُس نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا پر سعودی اور اماراتی افواج نے یہاں مداخلت کرکے اُس بغاوت کو ختم کیا۔

پہلے یہاں عرب پاکستانی آبادی کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ پر اب ایک آنکھ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ پاکستانیوں سے ڈرتے بھی تھے کہ یہ سخت جان قوم ہے اور ان کی آپس میں کم ہی لڑائی ہوا کرتی تھی۔ پر فروری 2011ء کے بعد سے سب بدل گیا ہے۔ تب سے اب تک بہت سے پاکستانیوں پر حملہ کیا گیا ہے کئی تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو اتنا مارا گیا ہے کہ وہ مستقل بستر سے جا لگے ہیں۔ بحرینی پولیس میں پاکستانیوں کو اب بھی شامل کیا جاتا ہے بلکہ ان کی تعداد پہلے سے زیادہ کر دی گئی ہے۔ نا اُن کو کوئی اسلحہ دیا گیا ہے اور نا ہی اُن کو مارنے کی اجازت ہے۔ میں تو اُنھیں مسکین پولیس کہتا ہوں کہ بےچارے ایک ڈنڈہ اور ایک شلیڈ کے ساتھ ان عربوں سے مقابلہ کرنے جاتے ہیں اور کبھی یہ دوڑ کر واپس آتے ہیں تو کبھی عربوں کو بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پچھلے ایک سال سے روزانہ بلاناغہ کھیلا جا رہا ہے۔ پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ اور انھیں بحرینی نیشنیلٹی کا لالچ دیا جاتا ہے اور یہ بےچارے اس لالچ میں آجاتے ہیں۔

ایک پاکستانی سے میری بات ہوئی تو کہتا ہے اس میں سب سے بڑا قصور ہماری پاکستانی حکومت کا ہے۔ میں نے کہا وہ کیوں ؟؟ تو بولا یہ عربی ہم سے ڈرتے تھے، ہم سے لڑائی نہیں کرتے تھے اسی ڈر سے کہ یہ ماریں گے، پر اب یہ پاکستان کی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں اور وہاں کے سیاسی حالات، آئے دن کے خودکش حملے، لوٹ مار، چوری، کرپشن ، روز روز کی بدلتی حکومت وغیرہ وغیرہ تو اِن کے دل سے وہ خوف ختم ہونا شروع ہوگیا کہ ہم تو اس قوم کو بہت بڑی توپ سمجھتے تھے اور یہ تو چوہے نکلے، ان کے اپنے گھر میں سکون نہیں تو یہاں ہمارا سکون کیوں برباد کر رہے ہیں۔ اور یہ خوف اب ختم ہوگیا ہے۔

آپ یہاں اکیلے شلوار قمیض پہن کر باہر نہیں جا سکتے ڈر ہوتا ہے کہ آپ کی پہچان ہوجائے گی اور کسی دن محلے کے آوارہ لڑکے آپ کو پکڑ کے ماریں گے۔ بہت سی پاکستانی فیملیز جو  یہاں 20 یا 30 سال سے مقیم تھیں چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور اِن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جو پاکستانی ان کے علاقوں میں رہتے تھے وہ سب چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں۔

فروری 2012ء میں حکومت کو بغاوت کا پھر خدشہ تھا تو اس بار پہلے سے سب تیاری کر رکھی تھی اور حکومت اس میں کامیاب بھی ہوئی، کوئی خون خرابہ نہیں ہوا اور سب ٹھیک ہی رہا۔ پر اب بھی ان کے چند مخصوص علاقے ہیں جہاں چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پہلے صرف پاکستانیوں کو نشانہ بناتے تھے، اب کوئی بھی ایشیائی ہتھے چڑھ جائے تو ”پینجا” لگا دیتے ہیں۔ بظاہر سب اچھا لگتا ہے، اور ایسا ہی ہے۔ سب اچھا ہے۔ میں جہاں رہ رہا ہوں وہاں ایسا کچھ نہیں کوئی لڑائی نہیں کوئی جلوس نہیں امن اور شانتی ہے۔ حکومت کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ اور ایشیائی آبادی بھی اس وجہ سے خوش ہے کہ شہروں میں سکون ہے۔ اب اپریل میں فارمولہ ون ریس ہونی ہے اور سب انٹرنیشل میڈیا یہاں آئے گا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ یہ بغاوت اس وقت پھر سر اٹھائے گی۔

میرے مطابق یہاں کے لوگ غلط سوچ رہے ہیں، جیسا یہ ملک چلنا چایئے ویسا ہی چل رہا ہے۔ کرپشن نہیں لوٹ مار نہیں سب کام وقت پہ بلکہ وقت سے پہلے۔ خلیفہ آئے دن چھوٹی موٹی تقریبات کا انعقاد کرتا رہتا ہے، جس سے یہاں کے رہنے والوں کا دل لگا رہے، گھر خود حکومت بنا کر دیتی ہے، جو کام نہیں کرتا اس کے لیے وضیفہ ہے سرکاری نوکریاں ہیں، سُنی آبادی خوش ہے پر شیعہ آبادی جمہوریت مانگتی ہے۔ انھوں نے شاید پاکستان کی جمہوریت نہیں دیکھی :)۔ دیکھ لیں تو اچھا ہے۔

4 comments:

waseem rana said...

قیمتی معلومات شئہر کرنے کا شکریہ

دن رات said...

یو آر ویلکم

Salman said...

Thoughtfull information. U r rite they didnt saw our gov. But that was informative here in uk media always telling one side pf story. I never realise who is pushing the ppl of these countries. Now what for libya are they more happy now?

دن رات said...

دراصل میڈیا چاہے پاکستانی ہو یا غیر مُلکی، ہمیشہ ون سائیڈڈ سٹوری ہی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ خود پہلے سے خیال کر لیتے ہیں کہ دونوں میں سے کون سی ایک پارٹی سچی ہے، پھر تحقیق بھی ایسی ہوتی ہے کہ اگر ایک گروپ سے ذرا سی مخالفت ملے یا وہ چیز شئیر نہ کرنا چاہتاہو فورا یہ تصور کر لیتے ہیں کہ یہی پارٹی غلطی پر ہے۔ یہاں سرکاری چینل کے خاص ایک چینل صرف اس لیے چلا رکھا ہے جس پر پورے جزیرے میں لگے سٹریٹ کیمراز چوبیسوں گھنٹے برائےراست نشریات دیکھاتے رہتے ہیں، اس لیے نہیں کہ اِن کو شوق ہے بلکہ اس لیے کہ غیر ملکی میڈیا اِن کے حالات کو غلط انداز میں دیکھا رہا تھا۔

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی