Monday, March 12, 2012

مالٹا بےچارہ۔۔۔

کچھ لوگ بہت عجیب و غریب طبعیت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہمی اتنے کے چھوٹی چھوٹی بات کو دل و دماغ پر سوار کر لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس بندے کو کوئی تمغہ دیا جانا چاہئے۔ آج کل کچھ ایسا میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ وقت گزر رہا ہے جو انتہائی وہمی ہے۔


سارا دن گھر میں پلان بنایا جائے گا کہ آج بازار سے کیا کیا لایا جانا ہے۔ پوری لیسٹ تیار کی جائے گی۔ فُل تیار ہو کر ( جیسے رشتہ لینے جا رہا ہو) کلون لگا کر (جیسے کبھی نہایا نہ ہو) نکلے گا اور پھر جس کام کے لیے جانا تھا وہاں نہیں جائے گا۔ رستے میں کوئی فروٹ والا ملا اُس سے دام پوچھ لیا۔ پانچ دس منٹ صرف اسی میں لگا دیے کہ مالٹا پہلے تم اتنے پیسے میں چار درجن دیتے تھے آج تین درجن کیوں؟ اور پھر یہ نہیں کہ ایک ریڑی سے پوچھیں۔ مارکیٹ جاتے جتنے فروٹ والے ملیں اُن سے مالٹے کے دام پوچھے جائیں گے۔ مالٹا بےچارہ بھی سوچتا ہوگا کہ یہ کون مجھے خریدنا چاہ رہا ہے۔اور دعا کرتا ہوگا کہ خدارا جھوٹ ہی ہو جائے کہ یہ مجھے آج خریدے۔مارکیٹ پہنچتے پہنچتے اتنے بندوں سے دام پوچھ لیں گے کہ آخر میں فیصلہ ہوگا کہ فروٹ مارکیٹ بھی تو وہیں پاس میں ہی ہے۔ سودا سلف لے کر واپسی پر وہاں سے ہوتے چلیں گے۔


مارکیٹ پہنچنے پر سب سے پہلے جوس لیں گے کہ گھر سے یہان پہچنتے بہت پیاس لگ رہی ہے۔ پھر لیسٹ نکالی جائے گی اور مختلف سیکشنز کی طرف اپنی کارٹ کو لے کر گھومنے نکل جائیں گے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ورلڈ ٹور پر آئے ہیں۔ جو کام ایک گھنٹے میں کیا جا سکتا ہے وہ چھ گھنٹے میں بھی مکمل نہیں ہوگا۔ایک ایک چیز کو چیک کریں گے۔ ایکسپائیر تو نہیں ہوگئی۔ ابھی کتنے دن باقی ہیں، یہ اچھا برینڈ نہیں ہے۔ اوہو اس برینڈ کی قیمت تو بہت زیادہ ہے۔ ابھی دو دن پہلے تو اتنی تھی۔ چلو کوئی اور دیکھ لیتے ہیں۔ اور وہاں موجود ایسی چیز لیں گے جو نا تو اِن ہوتی ہے اور شاید مارکیٹ میں سب سے ”تھکڑ” بھی ۔ لیسٹ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔(نام لینے دیں تو نا)۔


لیسٹ میں لکھی کافی چیزیں پین سے کاٹ دی جاتی ہیں کہ اُن کی قیمت یا کوالٹی اُن کے معیار کے مطابق نہیں اُترتی۔ کافی سے مراد تقریبا ساری ہی ہوتا ہے کیونکہ موصوف کو وہم ہو جائے کہ یہ چیر صحیح نہیں تو پھر وہ صحیح بھی ہو تو خراب ہوجاتی ہے۔ اللہ اللہ کر کے مارکیٹ سے شاپنگ پانچ،چھ گھنٹے میں ختم ہوجاتی ہے۔ پھر رُخ ہوتا ہے فروٹ مارکیٹ کا۔


مالٹا بےچارہ۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب اس بےچارے کی سنی نہیں جاتی۔ فروٹ مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی سبزی اور فروٹ کے دام پوچھے جاتے ہیں۔ یہ کتنے کا ہے وہ کتنی کی ہے، اور پھر وہی بحث شروع۔ مالٹے کے دام پوچھے تو ریڑی والے کے بتائے دام سے زیادہ۔ اس بےچارے کو وہاں سنا دیتے ہیں کہ ہمارے محلے میں تو اتنے کے دے رہا تھا، یہ سوچ کر یہاں آئے تھے کہ سستی اور اچھی چیز مل جائے گی پر لگتا ہے اُسی سے جا کر خریدنے پڑیں گے۔مزا تب آتا ہے جب دکاندار کہتا ہے بھائی دماغ خراب نہ کر آگے چلتا ہو۔ اتنا ہی سیانہ تھا تو وہیں سے خرید لیتا یہاں کیا ”آم لینے آیا ہے”۔ پھر جناب کا منہ ایسا بنتا ہے کہ بَڑ بَڑ شروع۔ خیر فروٹ مارکیٹ میں کوئی ایسا بندہ نہیں جو فروٹ ان کی قیمت اور معیار کے مطابق دے۔ ہاتھ میں سودا پکڑے ساری فروت مارکیٹ گھوم کر جب تھک جائیں گے تو کہیں گے۔” مالٹے بلڈنگ کے نیچھے کھڑے ریڑی والے سے ہی لیں گے۔ روز کے گاہک ہیں اس کے، کچھ دید لحاظ تو کرتا ہے نا”۔دل تو کرتا ہے کہ وہاں موجود سب فروٹ فروشوں سے اس کی پٹائی لگواؤں۔


جب تک گھر پہچتے ہیں راستے میں کسی بھی ایسی دکان میں گھس جائیں گے اور بلاوجہ کوئی بھی چیز اٹھا کر اس کے دام ضرور چیک کریں گے۔ لینا شینا کچھ نہیں ہوگا بس ایک وہم جو کہ پورا نہیں ہو رہا تھا پورا کیا جاتا ہے۔ بلڈنگ کے نیچے کھڑے بُندو سے مالٹے لیں گے اور اس بار کوئی بارگیننگ نہیں کریں گے۔ بس اتنا کہیں گے ”یار ہم تو تمھارے پُرانے گاہک ہیں” وہ بےچارہ ایک نظر دیکھتا ہے اور انہیں وہاں سے بھگانے کے لیے دو مالٹے زیادہ ڈال دیتا ہے۔ یہ اسی میں خوش ہیں کہ مارکیٹ سے دو مالٹے زیادہ لے کر آ رہا ہوں۔ میں ہر بار یہی سوچتا ہوں کہ اس بار ان موصوف کے ساتھ مارکیٹ کا رُخ نہیں کرنا پر ہر بار کوئی نا کوئی بہانا بنا کر ساتھ لے کر جائیں گے۔ اور یہ سب لکھنے کا مقصد یہی تھی کہ بائی فیس تو شاید میں اپنے غصے کا اظہار نہ کر سکوں پر اگر وہ اس کو پڑھیں تو کچھ تو شرم محسوس کریں۔ پر مجھے پتا ہے ایسا ہونے والا نہیں۔ ابھی ایسی بہت سی وہمی باتیں ہیں جو آپ سے کے ساتھ شئیر کرتا باقی ہیں۔ اللہ مجھے صحت اور ہمت دے۔ آمین۔

5 comments:

گمنام said...

Please use a nastaleeq font

دن رات said...

دراصل جو سسٹم میں استعمال کر رہا ہوں وہ سرکاری ہے اور اس میں فانٹ بھی سرکار کی انسٹال کرتی ہے۔ ابھی آرڈر نہیں ہوئے، انشاءاللہ جلد ہو جائیں گے۔

دن رات said...

sir if u can't read it. i m sorry for that. the system that i m using is sarkari and the fonts are installed by sarkar. so i have asked them to install that font. INSHALLAH when it is approved they will install it.

انکل ٹام said...

آہاہاہا حضرت جی یہ تو آپ نے کسی شکی مزاج آنٹی کی کہانی لکھ ڈالی ہے ۔۔ اگر انکل اس درجہ کے شکی اور وہمی ہیں تو میں دل سے دعا گو ہوں کہ اللہ آپ پر رحم کی برسات کریں ۔۔

دن رات said...

میں خود یہ دعا کرتا ہوں۔۔ اللہ آپ کی دعا قبول کرے۔ آمین۔

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی