Monday, March 26, 2012

گُلابوں والی گلی ۔۔۔

یہ تحریر بھی کافی عرصہ پہلے شئیر کی گئی تھی، اب ورڈپریس پر شئیر ہو رہی ہے ۔۔

گُلابوں والی گلی  ۔۔۔



اس وقت کی بات ہے جب لڑکیاں آج کے زمانے سے زیادہ لڑکیاں ہوتی تھیں۔ شعبہِ نفسیات پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ نیلم کاغذ پر کچھ لکھ رہی تھی، اچانک احمد بشیر اس کے پاس آیا اور کہا " یہ بعد میں لکھ لینا پہلے ذرا شادی کر لو " اور حیران دیکھتی رہی۔ احمد بشیر کو حیران کرنے کی بُری عادت ہے، یہاں تک کہ لوگ نیلم، سنبل، بشرٰی انصاری اور اسماء وقاص کو اس کی بیٹیاں سمجھتے رہے۔ چاروں ادب و ثقافت میں آئیں تو بیٹا نِکلیں۔


نیلم احمد بشیر کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ وہ گھر میں نہیں ، لائبریری میں پیدا ہوئی ہے۔ وہ سب بہنوں سے بڑی تھی اور اب تک بڑی ہے۔ بچپن میں اس سے چھوٹی سی غلطی ہو جاتی تو احمد بشیر کہتا " تمھاری یہ جرات ! چھوٹی سی غلطی تو آج تک ہمارے خاندان میں کسی نے کی نہیں۔ " صبح اٹھ کر ناشتہ تیار کر کے ماں کہتی کہ اب آپ اٹھ جائیں، میں نے آپ کے دانت صاف کر دیئے ہیں۔ شکل ایسی کہ منٹو کو پڑھ رہی ہو تو لگتا ہے، بہشتی زیور پڑھ رہی ہے۔ ویسے وہ اتنی معصوم نہیں جتنی شکل سے لگتی ہے، اس سے زیادہ ہے۔ وہ تو اپنے ہاتھ سے اُبالے پانی کو بھی دوسروں سے زیادہ گرم سمجھتی ہے۔ بات ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نہیں نکالتی، منہ سے نکالتی ہے۔ بولنے کا اس قدر شوق ہے کہ اس کی بیشتر کہانیاں واحد متکّلم میں ہوتی ہیں۔ سوچتی انگریزی میں، بولتی پنجابی اور لکھتی اُردو میں ہے۔ لیکن سمجھتی کسی زُبان میں نہیں۔


اتنی نرم دل کہ ٹی وی ڈرامے میں کسی جاننے والے کو بیمار دیکھ لے تو اس کے گھر عیادت کرنے چلی جائے گی اور اگر کوئی سچ مچ بیمار ہو جائے تو اس قدر پریشان ہو جائے گی کہ اس کا چہرہ دیکھ کر بیمار کو اپنے بچنے کی کوئی اُمید نہیں رہے گی۔ یاداشت بہت بُری ہے۔ آپ سوچیں گے، کیا بات بھول جاتی ہے۔ جی نہیں ! ہر بات یاد رکھتی ہے۔ دوسروں کے دُکھ سُکھ میں اس قدر شامل ہوتی ہے کہ موچ کسی کے پاؤں میں آتی ہے اور چلا اس سے نہیں جاتا۔


مشہور گلوکارہ بننے کے لئے جو کچھ چاہئے، اس کے پاس ہے۔ گا بھی لیتی ہے پینٹینگ بھی کرتی ہے۔ ویسے تو ہر خاتون بُنیادی طور پر پینٹر ہوتی ہے لیکن " ف " کہتا ہے کہ یہ ضروری بھی نہیں، کچھ خواتیں میک اپ نہیں بھی کرتیں۔ اداکاری کا بھی شوق ہے۔ بشرٰی انصاری اور اسماء وقاص نے ت یہ شوق پورا کرنے کہ لئے ٹی وی ڈراموں میں کام کیا اور اس نے شادی کرلی۔ اس لحاظ سے وہ اپنی ذات میں انجمن ہے۔ مگر جنھوں نے اسے دیکھا ہے اور " انجمن " کو بھی دیکھا ہے، وہ نہیں مانتے۔


صبح گھر سے نکلتے وقت پہلے گاڑی تک آئے گی۔ اُسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ وہ چابیاں تلاش کر رہی ہے۔ محلّے والے سمجھتے ہیں، جوگنگ کر رہی ہے۔ کہتے ہیں جس دن نوکرانی پر غصّہ آئے تو اسے کچھ کہنے کے بجائے گھر کا سارا کام خود کرنے لگے گی۔ اس حساب سے تو ہر وقت غصّے میں رہتی ہے۔کہتی ہے میں نے ایک دن نوکرانی کو کہہ دینا ہے " میرے سے اب اتنا کام نہیں ہوتا تم کوئی اور مالکن رکھ لو۔ " مالی ہر مہینے والد کی وفات کا بہانا کر کے ایڈوانس اور چُٹھی لے جاتا ہے اور یہ ہر ماہ سخت دل کرکے فیصلہ کرتی ہے کہ اللّہ کرے اب اس کا والد فوت نہ ہو۔ اگر ہو گیا تو ایڈوانس اور چھٹی نہیں دونگی۔


اس کے گھر میں ہر قسم کا ساز و سامان ہے۔ میں نے اکثر سنا ہے، والدین نے بیٹی کو جہیز میں بڑا ساز و سامان دیا تاکہ اسے نیا گھر چلانے میں آسانی ہو۔ سامان کی تو سمجھ آ جاتی ہے، ساز کیوں دیتے ہیں۔ اس کا پتا نہیں۔ بہرحال اس کے پاس بڑی انٹیک چیزیں ہیں جو اس نے اس وقت خریدیں جب وہ نئی تھیں۔


پندرہ برس امریکہ اس گھر میں رہی، جہاں اس قدر سردی ہوتی کہ کار اور گفتگو اسٹارٹ کرنے کی کوشش میں گھنٹوں لگ جاتے، تب کہیں جا کر کار اسٹارٹ ہوتی۔ امریکی معاشرہ تو وہ ہے جہان ایک شادی کی تقریب میں ایک نئی آنے والی مہمان سے پوچھا کہ آپ دُلھے کی کون ہیں? تو اس نے جواب دیا کہ میں دُلھے کی بہن ہوں۔ تو پہلی عورت نے کہا " آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی میں دُلھے کی والدہ ہوں۔ " پندرہ سال ااس معاشرے میں رہنے کے بعد اس کی یہ حالت ہو گئی کہ دن میں دو بار بھی ملے تو یوں ملے گی جیسے پندرہ سال بعد مل رہی ہو۔


کہتی ہے مجھے بچپن ہی سے ادب سے لگاؤ تھا اس لئے جب سائنس ٹیچر نے کہا " مادہ پھیلتا ہے " تو اس نے فورًا تذکیر اور تانیثکی غلطی نکال کر کہا " مادہ پھیلتی ہے۔ " یہی نہیں وہ تو مادہ پرست بھی شادی شدہ کو سمجھتی ہے۔ نیلم کی عمر کے معاملے میں ان سے بہت کم عمر ہے جو اس سے زیادہ عمر کی ہیں اور ان سے تھوڑی سی بڑی ہے جو اس سے بہت کم عمر ہیں۔


دس سال کا بچّہ بھی اس سے گھنٹہ گفتگو کر لے تو وہ خود کو چالیس سال اور اُسے دس سال کا سمجھنے لگے گا۔ غلطی کرنے کے باوجود اسے پتا نہیں چلتا کہ اس نے غلطی کی ہے اسے تو شادی کے کئی سال بعد پتا چلا کہ شادی شدہ ہے۔


نیلم پندرہ سال امریکہ میں نامکمل کاغذ پکڑے حیران کھڑی دیکھتی رہی۔ بہر حال ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے اِس دوران کچھ نہیں کیا، ماشاءاللّہ تین بچّوں کی ماں ہے۔ گزشتہ دو سال میں اس نے پندرہ سال پہلے کا خالی کاغذ رنگوں سے بھرا تو اس کا نام " گلابوں والی گلی " رکھا۔ کہتی ہے میں نے علامتی افسانے لکھے ہیں، غلط کہتی ہے۔ ایک بار امتحان میں ممتحن نے " ف " سے پوچھا کہ انور سجاد کے اس علامتی افسانے کا مطلب کیا ہے؟؟ تو " ف " نے کہا " سر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے فیل کرنا چاہتے ہیں۔ " میں نے سنا ہے " گلابوں والی گلی " بڑی ننگی کتاب ہے۔ جب نیلم نے یہ کتاب مجھے دی تو واقعی ننگی تھی یعنی بغیر ٹائیٹل کور کے البتہ اس کو پڑھ کر میں خود کو ننگا محسوس کرنے لگا۔ مجھے لگتا ہے اب نیلم جسے لوگ احمد بشیر کے حوالے سے جانتے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ احمد بشیر کو لوگ نیلم کے حوالے سے جانیں گے۔


ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب " افرتفریح " سے اقتباس ۔۔۔

2 comments:

راشدادریس رانا said...

بہت اچھی تحریر، کیا بات ہے ڈاکٹر یونس بٹ صاحب کی، بہت اعلٰی لکھتے ہیں۔ ناول ڈھونڈ رہا ہوں اگر مل جائے پی ڈی ایف میں، لیکن مفت نہیں مل رہا۔

دن رات said...

آپ یہاں چیک کر سکتے ہیں۔
http://allurdubooks.blogspot.com/p/books-by-dr-younis-buttmazah.html#!/p/books-by-dr-younis-buttmazah.html

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی