Thursday, March 22, 2012

بچپن کی کچھ یادیں ۔۔۔

بچپن میں اُلٹے کام کرنے پر والدہ سے مار پڑی، والد نے کبھی ہاتھ نہیں لگایا (چھوڑوایا بھی نہیں، شاید اس لیے کہ مار کا اثر نہ ہوتا)۔ پر بچے شرارت نہ کریں تو اور کیا کریں۔ ہم شرارت کرتے رہے اور مار کھاتے رہے۔

والدہ بازار شاپنگ کرنے گئی تھیں اور ہم تین (میں، چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی جو اُس وقت نو،چھ اور پانچ سال کے ہونگے)۔ کمرے میں قالین بچھا تھا اور ہم تینوں کھیل رہے تھے۔ اچانک پِلو فائٹنگ شروع ہوگئی۔ ایک دوسرے کو تکیے سے مارتے ، بھاگتے اور ہنستے۔ تکیے کی ایک سائیڈ سے سلائی کھلنا شروع ہوئی اور اس میں سے فوم کا ٹکڑا باہر نظر آنا شروع ہوگیا۔ میں نے اُسے اندر کرنا چاہا۔ اندر کرنے کے دوران سلائی اور کُھل گئی اور فوم زیادہ باہر آگیا۔ میں نے بجائے اسے اندر کرنے کے اُس کے چھوٹے چھوٹے پیس کرکے اُن دونوں پہ پھینکنا شروع کئے تو انھوں نے دیکھا دیکھی اُسی تکیے سے یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے کمرے میں فوم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پھیل گئے۔ :)

ہماری ایک عادت تھی کہ غلط کام کرنے کے بعد سو جایا کرتے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ کس نے کیا ہے :)۔ خیر امی واپس آئیں۔ کمرہ دیکھا اور پھر ہمیں وہاں سویا ہوا پایا۔ ہم تینوں کو اُٹھایا اور پوچھا یہ کس نے کیا ہے؟؟ ہم سے چُپ ۔۔ پھر چھوٹا بولا ” یہ بھائی نے کیا ہے” ۔۔ چھوٹے کے بولنے کی دیر تھی کہ بہن بولی ” جی امی یہ بھائی نے کیا ہے ” ۔۔ظاہر ہے کہ اب پیچھے میں ہی رہ گیا تھا تو ماننا پڑا کہ شروع میں نے کیا اور بعد میں یہ دونوں بھی شامل ہوئے۔ خیر کہاں سُنی جانی تھی۔ ایک ڈنڈا ہوا کرتا تھا امی کے پاس ۔۔۔ واہ ۔۔ کیا پٹائی ہوئی اُس سے اور اُس پہ ظلم یہ کہ قالین سے ٹکڑے نکالنا بہت مشکل تھا تو ہاتھوں سے ہم تینوں کو نکالنے کو کہا گیا ۔۔۔ ایک ڈنڈا پڑتا اور صفائی ہوتی ۔۔کتنے دن تک ہم تھوڑا تھوڑا کرکے قالین صاف کرتے اور جب تک صاف نا ہوا امی سے ڈانٹ پڑتی رہی۔

اِسی طرح ایک بار امی انڈوں کی ٹرے لے کر آئیں فریج میں رکھی اور خود سامنے والی آنٹی کے گھر چلی گئیں۔ ابوجی شام میں آیا کرتے تھے اور ہم تینوں گھر پہ موجود تھے۔ انہی دنوں ہمارے واشروم کا فلش سسٹم بھی خراب ہوا تھا اور پلمبر نے اُسے اتار کر واشروم سے باہر رکھا ہوا تھا۔ چھوٹی باہر گئی فریج کھولی انڈے دیکھے تو شرارت سوجھی کہ ہنڈیا بناتے ہیں۔ فلیش ٹینکی میں پانی بھرا اور ایک ایک کرکے تینوں نے انڈے اس ٹینکی میں ڈالنا شروع کئے۔(توڑ کر چھلکوں سمیت)۔۔۔۔ ٹرے کو ہم نے باہر ڈرم میں پھینکا اور ڈنڈے کو چمچ بنا کر ٹینکی میں پھیرتے رہے۔ حسبِ معمول یہ واردات کرنے کے بعد ہم تینوں سو گئے۔

امی آئیں اور انھوں نے ہمیں سویا ہوا پایا۔ ابھی رات کے لیے کھانا تیار نہیں تھا اور امی ، ابو کے آنے سے پہلے شام میں کھانا تیار کرتی تھیں۔ اُس دن ابو جلدی آگئے۔ خیر امی نے انڈے کوفتے بنانے کا پروگرام بنایا اور جب انڈوں کے لیے فریج کھولی تو انڈے غائب۔ سب جگہ تلاش کرنے کے باوجود نہ ملے تو ہمیں اُٹھا کہ انڈے کہاں ہیں اور ہم نے ہمیشہ کی طرح یہی کہا کہ معلوم نہیں۔ ہم تو سو رہے تھے۔ دل میں ڈر بھی تھا کہ اگر امی کو پتہ چل گیا تو خیر نہیں۔ ابو بازار سے کھانا لائے ، انڈوں کا معمہ حل نا ہوا۔ رات جب ابو واشروم جانے لگے تو ٹینکی کے پاس سے گزرتے وقت انہیں عجیب سی بُو آئی تو انھوں نے ٹینکی کا ڈھکن اُٹھا کر دیکھا تو پانی میں جھاگ ہی جھاگ اور انڈوں کے چھلکے تیر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے اور ادھر ابو نے امی کو بتایا کہ انڈے یہاں ہیں۔ پھر کیا تھا سونے سے پہلے وہ دھلائی ہوئی کہ آج تک یاد ہے۔ :)

4 comments:

علی said...

ہا ہا ہا ۔بہت مزے کا لکھا
زمانہ وہی اچھا تھا جب دنیا کی ہوا نہ لگی تھی

افتخار اجمل بھوپال said...

آپ کے ہُنرمند ہونے کا تو یہ تحریر پڑ کے قائل ہو گیا ہوں مگر آپ نے مجھے آپ نے مجھے کوئی حل نہیں بتایا آپ کے بلاگ پر تبصرہ شائع کرنے کیلئے ۔ مجھے جوانوں کی جدید تعلیم کا کیا فائدہ جو بڑھاپے میں سر کھپانا پڑے ۔ ورڈ پریس میں لاگ اِن ہو کر کوشش کر رہا ہوں جو کہ ماضی بعید میں میرا بلاگ تھا ۔
http://www.theajmals.com//

دن رات said...

انکل جی مجھے خود نہیں معلوم کہ مسئلہ کیا ہے۔ آپ کی لاسٹ پوسٹ مجھے سپیم میل میں آئی تھی۔

دن رات said...

بالکل سہی ۔۔ فکر نہ فاقہ ۔۔

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی