Wednesday, March 28, 2012

عباس ۔ تا۔ بش۔۔۔

عباس ۔ تا۔ بش۔۔۔


ڈاکٹر محّمد یونس بٹ کی کتاب " افراتفریح " سے اقتباس ۔۔۔


عباس تابش کو عباس ۔ تا۔ بش کہنا ایسا ہی ہے جیسے عباس تا " آسمان " کہنا۔ پھر بش کے پاس امریکہ ہی نہیں ذاتی باربرا بھی ہے اور عباس کے پاس تو ذاتی باربر بھی نہیں بلکہ یہ تو باربر سے ایک شیو کروا لے تو وہ تین کے پیسے مانگتا ہے۔

دور سے ہر کوئی خوبصورت لگتا ہے یہاں تک کے اپنی بیوی بھی اچھی لگتی ہے اور جب وہ پاس ہوتی ہے تو بندے کو لگتا ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ لیکن عباس کو دور سے دیکھ کر لگتا ہے جیسے سیدھا قبلِ مسیح آپ ہی کو ملنے آ رہا ہے۔ اِدھر اُدھر یوں دیکھتا ہے  جیسے آپ کو بھاگنے کا موقع دے رہا ہو مگر جوں جوں قریب آتا ہے، پھر آتا ہی ہی، جاتا نہیں۔ اس کی عمر کیا ہے۔ اسے خود پتہ نہیں۔ جوں جوں اس کے مسائل بڑھتے رہے وہ سمجھتا رہا، بڑا ہو رہا ہے حالانکہ وہ تو عیں بچپن میں بوڑھا ہو گیا تھا۔ دیکھنے میں اس عمر کا لگتا ہے جس میں سب سے آسان کام شعر کہنا ہے مگر عباس نے نوجوانوں کے لئے شعر کہنا اتنا ہی مشکل کر دیا ہے جتنی اس نے مشکلیں سہی ہیں۔ اب تو مشکلیں سہہ سہہ کر یہ حالت ہو گئی ہے کہ دوست اسے خوش کرنے کے لئے لطیفہ نہیں سناتے، اپنی مشکل سناتے ہیں۔ بیٹھا ہوا ہو تو یوں لگتا ہے جیسے اس نے کبھی کوئی حرکت ہی نہیں کی۔ البتہ چلنے لگے تو یقین نہیں آتا کہ رکاوٹ کے بغیر رُک بھی سکے گا۔ یوں چلتا ہے جیسے ظفر اقبال صاحب کا دماغ چلتا ہے۔

عباس خواتیں کے پردے کے اس قدر حق میں ہے عورتوں سے باتیں بھی پردے میں ہی کرنا چاہتا ہے۔ عورتوں کے پاس یوں بیٹھتا ہے جیسے اعتکاف بیٹھا ہو۔ اتنا ٹھنڈا ہے کہ گرمیوں میں بھی لڑکیوں کو کمبل لے کر اس کے پاس بیٹھنا پڑتا ہے۔ ویسے وہ بڑا کامیاب خاوند ثابت ہوگا کیونکہ جو خالد احمد کے ساتھ گزارا کر سکتا ہے ، وہ ہر قسم کی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ 

یاداشت ایسی کہ غسل خانے کا دروازہ کھول کر بھول جاتا ہے کہ وہ آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو غسل خانے میں جا کر بھول جاتا ہے کہ وہ یہاں کرنے کیا آیا ہے۔ اور غزل کہہ کر لوٹ آتا ہے۔  آپ کی باتیں سُن کر یوں سر ہلاتا ہے جیسے جو بات آپ نے اس کے کان میں ڈالی ہے، اسے سر میں مِکس کر رہا ہے۔ جب کسی پسند کے بندے سے  کلام کرنا چاہے تو خودکلامی کرنے لگتا ہے۔

جسے دشمن نہ بنانا چاہے،اُسے گہرا دوست نہیں بناتا۔ البتہ دوستوں دشمنوں، سب کے ساتھ پیار سے ملتا ہے، اس لئے پتہ نہیں چلتا کہ کس ملنے والے کو دوست سمجھ رہا ہے اور کسے دشمن۔ دوستوں کا اس قدر خیال رکھتا ہے کہ اگر بیمار ہو جائے تو گھر گھر جاکر ان سے عیادت کرواتا ہے۔ ہر چیز کا حساب غزلوں سے کرتا ہے۔ ایک دن کسی نے کہا " آج مہینے کی پچّیس تاریخ ہے۔" اپنی غزلیں گِن کر کہنے لگا " نہیں چوبیس ہے ! "۔

اس ملنے کے بعد بھی بندے کی اس سے آدھی  ملاقات ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ آدھا آپ کے پاس اور نصف کہیں اور بیٹھا ہوتا ہے۔ ابھی تک تو اس کی نصف بہتر پھی کہیں اور  ہی ہے۔ انگریزی سے اس قدر لگاؤ ہے کہ اس نے جتنی بار بی۔اے کا امتحان دیا انگریزی کا پرچہ ضرور دیا۔ کالج میں کلاسفیلوز کے ساتھ یوں پھرتا ہے کہ بچوں کی فیس معاف کروانے آیا ہے۔ خوش خوراک ہے یعنی خوراک دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ لمبا فاصلہ پیدل طے کرتا ہے اگر زیادہ قریب جانا ہو تو رکشہ لے لیتا ہے۔

وہ بڑا حساس ہے۔ دوسروں سے اکثر اسے ہمدردی ہو جاتی ہے اور اس کے لئے دوسرے کا مصیبت میں مبتلا ہونا ضروری نہیں۔ بس خوبصورت ہونا ضروری ہے۔ اسے دُنیا کا ہر خوبصورت انسان مظلوم نظر آتا ہے اور وہ عباس کے پاس بیٹھا ہوا ہو تو واقعی لگنے بھی لگتا ہے۔ عباس اپنی نسل کے شاعروں میں سب سے آگے ہے مگر وہ وقت دور نہیں جب اس کا پیٹ اس سے بھی آگے نکل جائے گا۔ کہتا ہے اس میں غزلیں ہیں ! غزلیں ! اگر یہ سچ ہے تو یہ پہلی تخلیق ہے جہ مہینوں کے بجائے منٹوں میں یہاں سے نکلتی ہے۔ عباس گا بھی لیتا ہے مگر اس کے گانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دوسروں کو سنائی نہیں دیتا۔ اس درد سے گاتا ہے کہ سننے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ اسے درد ہو رہا ہے۔

عباس کی دوسری کتاب کا نام " آسمان " ہے جو مجھے اس لئے پسند ہے کہ آسمان کا رنگ بلیو ہوتا ہے اور سنا ہے فلم اور قلم بلیو ہی زیادہ چلتی ہے۔ جہاں تک عباس۔ تا۔ بش کی بات ہے تو میں نے دونوں کے نام اس لئے اکٹھے نہیں کئے کہ لوگوں کی عباس کے بارے میں بھی وہی رائے ہے جو بش کے بارے میں ہے بلکہ اس لئے کہ صدر بش " نیو ورلڈ آرڈر " دے رہا ہے تو عباس کی اُردو شاعری” نیو ورڈ آرڈر”

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

آمدو رفت

کچھ میرے بارے میں

بلاگ کا کھوجی