کل ایک مارننگ شو کی رپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھی۔ جس کا موضوع یہ سوال تھا
” کیا انعم کو عزیر کو معاف کر دینا چاہئے؟”
ہوسٹ رو رہی تھی۔ عزیر رو رہا تھا۔ انعم رہ رہی تھی۔ اُن دونوں کی پیاری معصوم سی تین چار سال کی بیٹی باپ کو دو ماہ بعد دیکھ کر اُس سے لپٹ گئی، اور رونے لگی۔ اُس بچی کو دیکھ کر میرا دل بھی بھر آیا۔ جو نہیں جانتی تھی کہ وہ اس پروگرام میں کیوں آئی ہے، اُس کا باپ اتنے دن بعد اُس سے کیوں ملا ہے، اُس کی ماں اپنے خاوند سے الگ کیوں رہ رہی ہے۔
میزبان کے کہنے پر جب بچی نے اپنی ماں سے اپنے باپ کے لیے سفارش کی کہ ”امی گھر واپس چلیں نا”۔ تودیکھنے والے برداشت نہیں کر پائے ہوں گے۔
ابیھا(اگر میں غلط نہیں تو بچی کا نام تھا) جو اپنی ماں سے اِس معصوم سی خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔میاں بیوی کے جھگڑوں میں بچی ویران ہو رہی تھی۔ کافی منت سماجت کے بعد انعم نے عزیر کو معاف کیا اور عزیر نے بھی وعدہ کیا کہ وہ اب اچھا خاوند، اچھا باپ بن کے دکھائے گا۔
دیارِ غیر میں پانچ ماہ ہونے کو ہیں۔ابیھا کا سوال سُن کر مجھے اپنی بیٹی انابیہ کی یاد آئی جو جب بھی فون آتا ہے تو کہتی ہے ” بابا آپ گھر آجاؤ نا”۔
بیٹیاں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔
0 comments:
Post a Comment